’ہم اپنے گھر میں سو رہے تھے، باہر بارش ہو رہی تھی۔ خدشہ ضرور تھا کہ صبح سڑکوں پر پانی ہوگا، مگر جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ پانی صرف شہر میں نہیں بلکہ بیڈ روم تک پہنچ چکا ہے۔ باہر دیکھا تو پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سڑکوں اور گلیوں میں اتنا پانی تھا کہ گھر سے نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اب ایک ہفتہ ہو چکا ہے، ہم اسی پانی میں چل کر گھر سے نکلتے ہیں اور ضروریات پوری کر کے کمر تک پانی میں ڈوب کر واپس آتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے گجرات شہر کے رہائشی ریاض احمد کا، جنہوں نے اپنی 54 سالہ زندگی میں پہلی بار گجرات کو اس طرح ڈوبتے دیکھا۔
مزید پڑھیں
-
سندھ اور بلوچستان میں ممکنہ بارشوں کے باعث سیلاب کا الرٹ جاریNode ID: 894406
انہوں نے کہا کہ ’بارشیں پہلے بھی ہوتی تھیں، اربن فلڈنگ بھی ہوتی تھی، مگر وہ سیلابی صورتحال صرف بڑی سڑکوں اور چوراہوں تک محدود رہتی تھی۔ یہ پہلی بار ہوا کہ پانی ہمارے گھروں، بلکہ بیڈ رومز تک پہنچا، جس سے نظامِ زندگی درہم برہم ہو گیا۔ بچوں اور بڑوں کے کپڑوں سمیت فرنیچر، الیکٹرانکس کی اشیا، قالین وغیرہ سب خراب ہو گئے۔ کاروباری مراکز کی بیسمنٹس میں پانی گھسنے سے کروڑوں روپے کا تجارتی سامان، مثلاً کپڑے، ہوزری، جوتے اور دیگر اشیاء تباہ ہو گئیں۔‘
ریاض احمد کا کہنا تھا کہ ’کئی روز گزرنے کے باوجود انتظامیہ معمولاتِ زندگی بحال کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مقامی بیوروکریسی کے باہمی اختلافات ہیں، جن کی وجہ سے ریسکیو، ریلیف، پانی نکالنے اور مزید پانی کی آمد روکنے کے فیصلوں میں تاخیر ہوئی۔‘
اب ریاض احمد سمیت گجرات کا ہر شہری یہ سوال کر رہا ہے کہ گجرات کیوں ڈوبا؟
اب تک سامنے آنے والے جوابات کے مطابق غیر متوقع شدید بارشیں، نواحی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلے، جنہیں روکنے کا بندوبست نہ تھا، دیہی علاقوں میں لوگوں کا بند توڑنا اور انہیں دوبارہ بنانے میں رکاوٹ بننا، بے ہنگم تعمیرات اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے بروقت تیاری کا فقدان نے گجرات شہر کے ڈوبنے میں کردار ادا کیا۔

انتظامیہ تمام تر ذمہ داری بارشوں اور سابق حکومتوں پر ڈال رہی ہے، جبکہ مقامی نمائندے شہری انتظامیہ اور عوام کو ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔
مقامی بلدیاتی نمائندے چوہدری کاشف محمود نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ گجرات کے محلِ وقوع کے مطابق پانی نواحی علاقے دولت نگر کی طرف سے آیا، جو ماجرا، مہیسم، بھمبر روڈ سے ہوتا ہوا بارہ دری میں داخل ہوا۔
’وہاں سے کچہری چوک اور پھر پورے شہر میں پھیل گیا۔ اس میں کچھ پانی بارش کا اور کچھ بھمبر نالے کا تھا۔‘
ان کے مطابق، ’ماضی میں یہ پانی اپنے قدرتی راستوں سے ندی نالوں میں بہہ جایا کرتا تھا، لیکن حالیہ برسوں میں ان راستوں پر تعمیرات ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے پانی شہر میں داخل ہو گیا۔‘
اسی طرح دریائے چناب اور بھمبر نالے کے اندر بھی تعمیرات ہو چکی ہیں، جن کی وجہ سے شہر کا پانی باہر نہیں نکل سکا۔ پٹرول پمپ، ہوٹل اور کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی پانی کی گزرگاہوں پر قائم ہیں۔ بعض جگہ سڑکیں ایسی تعمیر کی گئی ہیں کہ پانی کا قدرتی بہاؤ رک گیا ہے، کیونکہ وہاں پلیاں نہیں بنائی گئیں۔

سید علی حریری، جو گجرات میں پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’قدرت اور بارشوں کو الزام دینا آسان ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹاؤن پلاننگ کے افسران اپنا کام نہیں کرتے۔ زمین بیچنے والوں نے پانی کی گزرگاہیں تک بیچ ڈالیں اور خریداروں نے وہاں سستے پلاٹ خرید کر گھر بنا لیے۔ اس سے سیلابی پانی کا راستہ بند ہو گیا۔ اس کے ذمہ دار صرف افسران یا حکومت نہیں، بلکہ عام شہری بھی ہیں۔‘
اربن فلڈنگ سے شہر کا نظام زندگی مفلوج
شہر کے کاروباری مراکز، قبرستانوں اور گھروں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔ گجرات کی 80 فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے۔ سڑکیں، گلیاں، محلے، بازار، عبادت گاہیں، حتیٰ کہ قبرستان بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ شہریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے گجرات دورے کے بعد وزیرِ بلدیات ذیشان رفیق سمیت پانچ صوبائی سیکریٹریز کو عوامی مشکلات کم کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
لیکن مقامی شہریوں کے مطابق ہیوی مشینری اور 111 رکنی ماہرین کی ٹیم بھی مؤثر ثابت نہ ہو سکی، جس پر پاک فوج کے 150 جوانوں نے موقع پر پہنچ کر لورائے مدینہ سیداں چوک کے مقام پر چھ گھنٹوں میں عارضی حفاظتی بند بنا کر شہر کی طرف بڑھتے پانی کا رخ موڑ دیا۔
