عرب خانہ بدوشوں کے خیمے ورثے اور مہمان نوازی کی علامت
عرب خانہ بدوشوں کے خیمے ورثے اور مہمان نوازی کی علامت
اتوار 14 ستمبر 2025 20:19
گرمیوں میں سفید ، سردیوں میں سیاہ بھیڑوں کے بال استعمال کیے جاتے ہیں (فوٹو، ایس پی اے)
جزیرہ نمائے عرب کے صحراؤں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کے لیے پرانے وقتوں سے ہی خیمہ ان کی زندگیوں کی نمایاں ترین خصوصیت میں سے ایک ہے۔ خیمہ نہ صرف ان کے لیے پناہ گاہ ہے بلکہ ایک ثقافتی مرکز بھی ہے جہاں پر میزبانی، شاعری اور کمیونٹی کی روایت پھلتی پھولتی رہی ہے۔
دستکار لفوۃ الفھیقی نے جن کا تعلق الجوف ریجن سے ہے نے بتایا کہ خیمہ بنانے کا فن اپنی والدہ اور نانی سے وراثت میں ملا تھا اوراس روایت کو آج تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی ایس پی اے کے مطابق الفھیقی کہتی ہے کہ وہ بکری کے بالوں اور نجد کی بھیڑوں کی اون سے خیمہ سازی کا کام کرتی ہیں تاکہ یہ تاریخی ہنر محفوظ رہ سکے۔
خیمہ بنانے میں بھیڑوں کی اون اتارنا اور اس کی تراش خراش درست کرنا پھر اسے دھونا اور سکھانا لازمی ہوتا ہے ۔ پھر اس مواد سے دھاگہ بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد دھاگے سے بُنائی کر کے ایک بڑے کپڑے کی صورت دی جاتی ہے جس کے بعد اس سے خیمے بنائے جاتے ہیں ۔
خیمے کے انتخاب میں موسمی حالات بھی اہم ہوتے ہیں (فوٹو، ایس پی اے)
الفھیقی نے سعودی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیمہ سازی اجتماعی کام ہے۔ ’جتنے زیادہ ہاتھ ہوں گے اتنا ہے خیمہ بنانا آسان ہوگا اور اتنی ہی تیزی سے کام مکمل ہو گا۔‘
خیمے کے انتخاب میں موسمی حالات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاہ بکری کے بال، موسمِ سرما کو ذہن میں رکھ کر تیار کیے جانے والے خیموں کے لیے بہتر سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان بالوں سے بنے ہوئے خیمے میں حرارت دیر تک محفوظ رہتی ہے۔ اس کے برعکس سفید اون سے بنے ہوئے خیمے گرمیوں میں پسند کیے جاتے ہیں کیونکہ ان میں ٹھنڈک کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔
چرخی کا تکلا، لکڑی یا لوہے کے ڈنڈے جن سے خیمے کو کھینچا جاتا ہے، کیل اور سلائی کرنے والا دھاگا، ان آسان سے اوزاروں کو استعمال میں لا کر الفھیقی وہ خیمہ تیار کر لیتی ہیں جو صحرائی خانہ بدوش عربوں کی وراثت کی علامت بن جاتا ہے۔
چرخی کا تکلا، لکڑی یا لوہے کے ڈنڈے جن سے خیمے کو کھینچا جاتا ہے(فوٹو، ایس پی اے)
اور اس ہنر کو آئندہ نسلوں تک منتقل کر کے الفحیقی اور دیگر خواتین دستکار یہ یقینی بنا رہی ہیں کہ عرب خانہ بدوشوں کی وہ وراثت جو انھیں آج بھی بہت عزیز ہے۔۔۔یعنی ان کا خیمہ۔۔۔ان کی میزبانی اور شناخت کی علامت کے طور پر زندہ رہے۔