سعودی عرب کے رنر نصر حکمی، پہاڑوں کی دوڑ میں لوگوں کی توجہ حاصل کر رہے ہیں اور مملکت کا نام کوہِ طویق سے بین الاقوامی مقابلوں کے میدانوں تک لے گئے ہیں۔
40 برس کے رنر نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں چھوٹی عمر سے ہی پہاڑوں کے ساتھ بہت رغبت ہے جو انھیں اکساتی رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ٹریننگ بھی کرتے ہیں اور مقابلوں کے شوقین بھی ہیں۔
’میرے شدید میلان اور خواہش نے مجھے اس کھیل کی طرف راغب کیا کیونکہ مجھے بچپن ہی سے پہاڑوں سے ایک خاص اُنسیت تھی۔ پہاڑوں کے اوپر قدرتی مناظر مجھے بھاتے ہیں۔ فطرت کے لیے میرے اندر ایک جذبہ ہے اور میرے لیے پہاڑ اور قدرتی مناظر، زندگی کے پریشر سے بچنے کی ایک پناہ گاہ بھی ہیں‘۔
مزید پڑھیں
-
سعودی ایتھلیٹ خواتین نے 12 تمغے جیت لیے
Node ID: 459446 -
سعودی ایتھلیٹ مازن الیاسین ٹوکیو اولمپکس سے باہر
Node ID: 588026
حکمی، ریاض میں رہتے ہیں اور انھوں نے مملکت میں اور مملکت سے باہر بھی ایک درجن سے زیادہ پہاڑی ریسوں کے مقابلوں میں شرکت کی ۔ انھوں نے جن مقابلوں میں شرکت کی ان میں مملکت کے اندر العلا ٹریل ریس، تھائی لینڈ کی الٹرا ٹریل چیانگمائی، اور موریشس میں بلیک ریور پِیک الٹرا ٹریل شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ پہاڑوں پر دوڑ لگانے والے پہلے ایسے عرب ہیں جنھوں نے مونٹ بلانک کی الٹرا ریس مکمل کی ہے‘۔ اس ریس کو دنیا کی مشکل ترین ٹریل الٹرا میراتھون میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 171 کلو میٹر ہے اور اونچائی دس ہزار میٹر تک ہے۔ یہ ریس اس سال اگست کی 29 تاریخ کو ہوئی تھی۔
حکمی کے بقول’میں اس ریس کے چیلنج کے لیے 40 گھنٹے اور 53 منٹ دوڑتا رہا۔ یہ ٹریل فرانس، اٹلی اور سوٹزرلینڈ کے اندر سے گزرتی ہے اور میں وہ پہلا عرب ہوں جسے نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ’ریس کا سب سے بڑا چیلنج شدید سرد موسم اور تیز بارش تھی۔ اس کے علاوہ مجھے تھکاوٹ سے بھی لڑنا تھا۔بس میری سخت ٹریننگ ہی میری تیاری اور کامیابی کا راز ہے‘۔

جیت کے نشان پر پہنچنے پر حکمی نےسعودی عرب کا راویتی لباس عِقال اور بِشت پہن رکھا تھا جو مملکت کی ثقافت کو نمایاں کر رہا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے مملکت اور عربوں کی نمائندگی کرنا بہت اچھا لگتا ہے اور میں سعودی لباس پہن کر اس کی علامت بنتا ہوں جس پر مجھے فخر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح تماشائیوں نے مجھ سے بات کی اس نے میرے جذبات کو بہت متاثر کیا‘۔
مشکل ترین راستوں سخت حالات اور بغیر کسی تعاون کے حکمی اپنی کارکردگی میں بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔
’میں جو کرتا ہوں اسی جذبے نے مجھے ان چیلنجز سے لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اگر کوئی چیز آپ کو اچھی لگے اور آپ انجوائے بھی کریں تو پھر تخلیقی عمل سے دنیا کی کوئی طاقت آپ کو نہیں روک سکتی‘۔
حکمی نے کہا پہاڑوں پر دوڑ نے ان کے کرادر کو تبدیل کیا ہے اور وہ ذاتی طور پر اور پیشہ ورانہ انداز میں بہتر ہوئے ہیں۔’میرے اندر عاقبت اندیشی کا احساس پیدا ہوا ، غیر روایتی طریقوں کے بجائے جدت پسند سوچ کی عادت پڑ گئی اور ہر مشکل کا حل تلاش کرنے کا شوق ہو گیا ہے‘۔

ان کی تیاری میں ذہن کو توانا بنانا اور جسمانی ٹریننگ شامل ہیں۔ ’میں مقصدیت کی ترغیب دینے والی وڈیوز دیکھ کر اور ترقی کی طرف لے جانے والی کتابیں پڑھ کر خود کو تیار کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بھی ٹریننگ کرتا ہوں تاکہ روٹین بدل جائے اور اس سے ٹریننگ کا پریشر بھی ختم ہو جاتا ہے‘۔
سعودی لینڈ سکیپ سے اپنے گہرے تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے حکمی کا کہنا ہے ’طویق کا پہاڑ میرے لیے تحریک کا ذریعہ ہے اور میں نے وہاں ٹریننگ کے بہت سے سیشن کیے ہیں۔ مجھے اس پہاڑ سے طاقت ملتی ہے‘۔
حکمی کو امید ہے کہ مستقبل میں وہ مزید آگے جائیں گے۔ انکا کہنا ہے کہ ’میرا خواب ہے کہ میں امریکہ میں ہونے والی طویل ترین دوڑ میں مملکت کی نمائندگی کروں۔ لیکن اس کے لیے مجھے تعاون درکار ہے جو میرے خوابوں کی تکمیل میں میری مدد کرے‘۔