Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سی ریئس‘، آسمان کا سب سے روشن تارا اور قدیم ثقافت کی علامت

’سِی ریئس‘، عربی ادب کی روایت میں نسلوں سے موجود ہے (فوٹو، ایس پی اے)
آسمان کی وسعتوں میں رات کو  اتنے ستارے چمک رہے ہوتے ہیں کہ ان کی تعداد کا تعین تک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان ستاروں میں کسی میں بھی وہ چمک  نہیں جو ’سِی ریئس‘ میں پائی جاتی ہے۔ اسے ڈاگ سٹار بھی کہتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق آسمان کا یہ دیو ہیکل ستارہ، فلکیات کے ماہرین کے لیے بہت دیر تک معمہ بنا رہا ہے اور اس نے دنیا بھر میں تہذیبوں کو ہزاروں برس تک متاثر کیا ہے۔ اگر چمک دمک میں اس ستارے سے کوئی اوپر ہے تو بس سورج ہی ہے۔
برجیس الفلیح جو ایسٹرونومی کی آفاق سوسائٹی کے رکن ہیں کہتے ہیں ’سِی ریئس کے دو حصے ہیں یعنی ایک بہت بڑا ستارہ، اپنے مدار میں دیگر چھوٹے ستاروں کے جھرمٹ سے جُڑا ہوا گردش میں مصروف ہے‘۔
اس کا زمین سے فاصلہ آٹھ نوری سال ہے اور یہ زمین کے ہمسایے میں موجود ستاروں میں سے ایک ہے۔ لیکن اتنے زیادہ فاصلے کے باوجود ’سِی ریئرس‘ کی کمیت، سورج سے تقریبا دگنی ہے اور اس کی سطح کا درجۂ حرارت بھی انتہائی زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کی روشنی آنکھوں کو خِیرہ کرنے والی ہے‘۔
انسانی تاریخ اور مختلف تہذیبوں میں ’سِی ریئس‘ کے 50 سے بھی زیادہ نام رکھے گئے ہیں۔ مغربی ماہرینِ فلکیات نے قدیم یونانی تہذیب سے مستعار لے کر اس کا نام ’سِی ریئس‘ رکھا جس کا معانی ہے ’شعلوں سے بھرا ہوا یا انتہائی چکمدار‘ ۔
عربی کے فلکی ماہرین البتہ اسے ’الشرہ الیمانیہ‘ کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت مذہبی کتب میں ملتی ہے۔ قرآنِ پاک میں اس کا ذکر سورۂ النجم میں آتا ہے جہاں مذکور ہے: ’اور وہی سِی رئیس‘ کا بھی مالک ہے‘۔
کے نِس میجر نامی وضعِ فلکی میں واقع اس نمایاں ستارے نے ’ڈاگ سٹار‘ کی عرفیت حاصل کر لی ہے۔ فلکی مبصر بعض اوقات اسے ’رین بو سٹار‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ کئی مرتبہ فضا میں عملِ انعطاف کی وجہ سے اس ستارے کی جھل ملِ کرتی شعائیں منعطف ہو کر شاندار رنگ بکھیر دیتی ہیں۔ یہ روشنیوں کا ایک ایسا فطری شو بن جاتا ہے کہ لوگ بعض اوقات اسے اڑن طشتری سمجھ کر اس کی گواہیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں آسمان پر ’سِی ریئس‘ کی آب وتاب دید کے قابل ہوتی ہے۔ یہ ستارہ ہر برس دسمبر میں شام کے وقت آسمان پر نمودار ہوتا ہے اور اپریل کے وسط تک راتوں کو آسمان پر جگمگاتا رہتا ہے۔ پھر زمین کی گردش کے باعث رفتہ رفتہ یہ ستارہ جنوب مغربی افق کی طرف نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ فلکیات کے شوقین آسانی کے ساتھ اس کے سفر کے راستے کا تعین کر سکتے ہیں اگر وہ ’اوریئن‘ کی نمایاں پٹی پر ایک تصوراتی لکیر کھینچ لیں۔
’سِی ریئس‘، عربی ادب کی روایت میں نسلوں سے موجود ہے۔ شاعروں نے اس کی چمک دمک سے اپنے شعروں کو آب و تاب دی ہے اور اس کی تابانی کو تلواروں کی چمک اور آنکھوں کی روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ ’سِی ریئس‘ اب تابناکی اور درخشانی کی ختم نہ ہونے والی علامت بن چکا ہے۔
یہ آسمانوں کا وہ چمکتا دمکتا مشاہدہ ہے جسے ہم پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکے لیکن یہ سائنسی عجوبوں کو قدیم زمانے کی داستانوں اور فنکارانہ اظہار سے جوڑ ضرور دیتا ہے۔
عرب کے قدیم تاجروں کے لیے ان کے تجارتی سفر کے دوران یہ ستارہ، راستوں کی رہنمائی میں ان کا اہم ترین سہارا رہا ہے۔
روایتی نجدی فلکیات میں ’سِی ریئس‘ کی میراث کو راشد الخلاوی جیسی شخصیات کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے جو اس ستارے پر نظر ڈال کر کہا کرتے تھے ’آج سے 25 راتوں کے بعد المرزام (جو سِی ریئس کا مقامی نامی ہے) اپنی تُند و تیزی کے ساتھ یوں نظر آئے گا جیسے بھیڑیے کے دل میں روشنی کا نشان نظر آتا ہے‘۔

 

 

شیئر: