Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تین گھنٹے تیرتا رہا‘، عمان کشتی حادثے میں بنوں کے 22 ماہی گیروں میں سے ایک ہی زندہ بچ سکا 

’شام ڈھلتے ہی کھانے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک کشتی کے کونے میں آگ بھڑک اٹھی۔ کچھ ساتھیوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی مگر دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلوں نے پوری کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‘
یہ الفاظ تھے عمان کے سمندر حادثے میں بچ جانے والے نوجوان حمید اللہ کے جن کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں سے ہے۔ 
عمان کی سمندری حدود میں 6 ستمبر کی شام کو بحری لانچ کو حادثہ پیش آیا جس میں 23 افراد سوار تھے۔
اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے نوجوان کاکہنا تھا کہ ’بدقسمت کشتی میں سوار تمام افراد بنوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کشتی پر آگ لگنے کے بعد سب نے جان بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگائی۔ اندھیرا تھا تو کسی کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا چنانچہ جان بچانے کے لیے سب نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔‘
حمیداللہ کے مطابق سیفٹی جیکٹ کے بغیر تین گھنٹے تک تیراکی کی۔ پھر اچانک دور سے ایک کشتی نظر آئی جس نے مجھے ریسکیو کرکے عمان نیوی کے حوالے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پانی میں چھلانگ لگانے کے بعد مجھے نہیں پتا کہ باقی ساتھی کہاں گئے کیونکہ اندھیرا تھا اور سب جان بچانے کے لیے مدد حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔‘ 
حمید اللہ کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک خوفناک شام تھی۔ میرے ذہن میں ابھی وہ لمحہ موجود ہے۔ ساتھیوں کے زندہ بچ جانے کی امید نہیں مگر ربِ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی میتیں مل جائیں۔‘

حادثے میں بچ جانے والے نوجوان حمید اللہ کا تعلق ضلع بنوں سے ہے۔ 

ایک ہی گاؤں کے 22 افراد لاپتہ ہیں
عمان کے سمندر میں ڈوبنے والے افراد کا تعلق بنوں کے دورافتادہ گاوں خوجڑی سے ہے۔ واقعہ کے بعد گائوں میں گزشتہ دو ہفتے سے سوگ کا سماں ہے۔
ایک جانب فاتحہ خوانی کے لیے لوگوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب لواحقین کو اپنے پیاروں کے زندہ لوٹ آنے کی آس بھی ہے۔
 گائوں کے رہائشی اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’کشتی حادثے میں 22 افراد نہ صرف ایک ہی گائوں کے رہائشی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں۔‘
6 ستمبرکے حادثے میں صرف حمید اللہ ہی زندہ ریسکیو ہوئے ہیں جو گزشتہ روز کراچی سے بنوں پہنچے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کشتی میں سوار باقی 22 افراد کا سرِدست کوئی پتہ نہیں ہے۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر ریسکیو آپریشن تیز کرے کیونکہ دو ہفتوں سے ڈوبنے والوں کی میتوں کو ڈھونڈا نہیں جا سکا۔‘
بنوں کے شہری کشتی کا سفر کیوں کر رہے تھے ؟
بنوں کے علاقے خوجڑی کے بیشتر افراد کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے جس کے لیے وہ بلوچستان کے ذریعے سمندروں میں مچھلی پکڑنے جاتے ہیں۔
مقامی شہری عبدالوکیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہاں پوری فیملی ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہے۔ یہ سلسلہ تین پشتوں سے چل رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مچھلی پکڑنے کے لیے قانون کے مطابق لائسنس موجود ہے۔ مچھلی پکڑنے کے لیے ماہی گیر ایک ماہ تک سمندر میں سفر کرتے ہیں اور پھر انہیں مقامی مارکیٹ میں لاکر فروخت کرتے ہیں۔‘
عبدالوکیل کے مطابق غریب گھرانے کے بچے روزگار کی تلاش میں نکلے تھے مگر ان کو کیا خبر تھی کہ وہ حادثے کا شکار ہو جائیں گے۔

6 ستمبر کی شام کو بحری لانچ کو حادثہ پیش آیا جس میں 23 افراد سوار تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جن کے لواحقین میں صرف خواتین اور بچے پیچھے رہ گئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لواحقین کی امداد کے لیے اعلان کرے تاکہ ان کی داد رسی ہوسکے۔‘ 
بنوں کے ایم این اے مولانا سید نسیم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’عمان کے سمند میں کشتی کا حادثہ صوبے کے لیے ایک سانحہ ہے جس میں 22 قیمتی جانیں چلی گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’غریب ماہی گیر رزق کی تلاش میں نکلے تھے مگر موت کے منہ میں چلے گئے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے لواحقین کے لیے امداد کا اعلان کیا جائے گا جس کے لیے وزیراعلیٰ کی جانب سے ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔‘

 

شیئر: