Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی دارالحکومت میں پرانے ملبوسات کو نئی زندگی کیسے مل رہی ہے؟

طاقیہ ہاؤس استعمال شدہ کپڑوں سے نئے فیشن کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی دارالحکومت ریاض میں پرانے کپڑوں کو نئی زندگی مل رہی ہے۔ ورکشاپس ہوں یا کپڑوں کی الماریاں، استعمال شدہ کپڑوں کو نئے سرے سے قابلِ استعمال بنوانا ایک معمول بلکہ ایک نیا سٹائل بن گیا ہے۔
پارچہ خانے تو جیسے تخلیقی کام کے لیے مواد فراہم کر رہے ہیں۔ ریاض میں اس تبدیلی کی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ ’دار الطاقیہ‘ یا ’طاقیہ ہاؤس) ہے جو استعمال شدہ کپڑوں سے نئے فیشن کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
راکان فارس کی عمر 25 برس ہے، انھوں نے عرب نیوز کو بتایا ’مجھے بچپن ہی سے فیشن اور فن کا شوق تھا۔ میں Y2K زمانے میں بڑا ہوا (نوے کی دہائی جب پاپ کلچر، میوزک اور فیشن کا دور دورہ تھا) اور مجھ پر میرے خاندان، ماحول، میوزک اور طرزِ زندگی کا بہت زیادہ اثر تھا۔
راکان فارس نے جنھوں نے پیرس سے تربیت حاصل کی ہے جبکہ ریاض میں ان کی جڑیں ہیں، ’طاقیہ ہاؤس‘ شروع کیا جس کا نعرہ تھا ’جو چیز کسی کام کی نہیں اسے کام میں لاؤ‘۔ انھوں نے ٹوپیوں سے کام کا آغاز کیا اور جوں جوں لوگوں کی دلچپسی بڑھی، انھوں نے لباس کو شامل کر کے اپنے کام کو وسعت دی۔
اس تبدیلی کو آگے بڑھانے میں سخاء پروگرام بھی پیش پیش ہے۔ اس پروگرام کے تحت مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں جس کا مقصد ریاض میں ایک ری سائیکلنگ پلانٹ لگا کر استعمال شدہ کپڑوں کو کام میں لانا اور کپڑوں کا ضیاع بچانا ہے۔
یہ پروگرام کپڑوں کے ضیاع کو کم کرے گا، آگاہی پھیلائے گا، ملازمت کے مواقع پیدا کرے گا اور انتہائی کم یا بغیر کسی لاگت کے، کپڑے مہیا کرے گا جو ایک کثیرالاستعمال ماڈل کے ذریعے ہوگا۔

راکان فارس کی عمر 25 برس ہے (فوٹو: انسٹاگرام)

فارس کے مطابق ’ریاض کے نوجوان، وہاں کا جذبہ، کلچر اور مستقبل کی امنگوں کو ’طاقیہ ہاؤس‘ میں شناخت مل جاتی ہے۔
سٹوڈیو میں ’داستان گوئی، پرانے کپڑوں کو نئے رنگ میں ڈھالنے کا اہم حصہ ہے۔ کپڑے کے ہر ٹکڑے کے ساتھ کوئی کہانی وابستہ  ہوتی ہے جسے دوبارہ سے کام میں لا کر، ہم اس کہانی کو پھر سے لکھتے ہیں۔
چونکہ لوگ  بڑی تعداد میں استعمال شدہ کپڑوں کو ’نیا بنانے‘ کے شوقین ہیں، لہذا ’مرمت‘ کا کام کرنے والے، کپڑوں کی اتنی زیادہ تعداد کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ وہ مضبوط کپڑوں کی خرابیاں دُور کرتے ہیں، وہ لباس جن کی قدر و قیمت بڑھنے کا امکان ہوتا ہے انھیں نئے ڈیزائن میں بدل دیتے ہیں اور بے کار مال کو نئے میٹریل میں تبدیل کر دیتے ہیں۔‘
’یہ کام ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ چونکہ استعمال شدہ کپڑے بڑی تعداد میں ہمارے پاس آتے ہیں اس لیے کئی مرتبہ چُوک ہو جاتی ہے اور بہت سے قابلِ استعمال کپڑوں پر نظر ہی نہیں پڑتی۔ بہت مرتبہ کپڑوں کو قابلِ استعمال بنانا، انھیں تیار کرنے سے بھی زیادہ وقت لیتا ہے۔
طاقیہ ہاؤس‘ میں ہر چیز دیکھ بھال کر کی جاتی ہے۔ فارس کے بقول ’ہم بہت غور سے اندازہ لگاتے ہیں کہ آیا کوئی لباس آج کل کے ’تھیم‘ سے مطابق بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ کیا اسے مستقبل کے لیے رکھ دیا جائے یا اسے نکال دیا جائے خواہ عطیے کی صورت میں یا ناکارہ سمجھ کر۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس نظام کے ساتھ رویے بھی بدل رہے ہیں۔’پرانے اور استعمال شدہ کپڑوں کو پھر سے کام میں لانے کے ساتھ جو بدنما دھبہ لگا ہوا ہے وہ ختم نہیں ہوا لیکن رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اکثر گاہک دیرپا کپڑے چاہتے ہیں، انھیں کپڑوں میں تخلیقی کام اچھا لگتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لباس میں کوئی معنویت ہو۔

راکان فارس نے فیشن کی تعلیم پیرس سے حاصل کی ہے۔ (فوٹو: انسٹاگرام)

ان کا کہنا ہے کہ ’مملکت میں کسٹمر اب زیادہ باخبر ہیں۔ وہ سٹائلش ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ماحول بھی محفوظ رہے۔‘
اس کام میں مستقبل کا انحصار ہنر پر ہے۔ ’ہمیں تعلیمی پروگراموں، کورسسز اور ان ڈگریوں کی ضرورت ہے جن میں فیشن کی پائیداری اور پرانے کپڑوں کو بہتر اور مفید بنانے پر توجہ ہونی چاہیے۔
کپڑوں کی بنت کی شناخت، پیٹرن کاٹنا، مرمت اور پائیدار ڈیزائن بنانے جیسے کاموں سےملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور عطیہ کردہ چیزوں کے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔
فارس کے لیے اس کام کے مؤثر یا نتیجے خیز ہونے کی میزان، نقطۂ نظر میں تبدیلی ہے۔ ہم کامیابی کا پیمانہ فروخت کو نہیں بلکہ اس بات کو رکھتے ہیں کہ ہمارا کام فہم و ادراک میں کتنی تبدیلی لایا ہے۔ سخاء پروگرام ایک ڈھانچہ فراہم کرتا ہے، خود مختار لیبل اسے متحرک کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ وہ لباس پہنے کا انتخاب کر رہے ہیں جس کی تصویر کشی اور بناوٹ ازسرِ نو ہوئی ہے۔

 

شیئر: