Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی نوجوان جو ثقافتی ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں

حماد الشمری کے مطابق فنِ تعمیر ثقافت کی زرخیزی کو ظاہر کرتا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں بہت سے نوجوان مختلف تربیتی پروگراموں اور ورکشاپس کے ذریعے روایتی ہنر کو اپنا رہے ہیں جس سے ان کی ثقافتی شناخت، جدید مواقع سے جُڑ رہی ہے۔
حماد الشمری نوجوان دستکار ہیں جو مٹی سے چیزیں بنانے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہنر کے سفر کا آغاز ایک تاریخی گھر کے خالی ہونے سے ہوا۔
انہوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں مجھے پرانی عمارتوں کی قدر کا احساس ہوا۔ ان کی بناوٹ کی خوبصورتی، عمارتوں میں نصب ستون اور مستند تعمیراتی خصوصیات سب نے متاثر کرنا شروع کیا۔ اور اسی لمحے میرے اندر قدیم روایتی گھروں کو بحال کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔
حماد الشمری نے روایتی فنون کے ’رائل انسٹیٹیوٹ‘ سے (جسے وِرث بھی کہتے ہیں) مٹی کے ذریعے تعمیرات کے ہنر میں سپیشلائز کیا۔ یہاں انہوں نے عمارتوں کی تعمیر اور بحالی کی تکنیک سیکھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’وِرث میرے سفر میں رحمت بن کے سامنے آیا ہے۔ اس سے مجھے عملی اور علمی دونوں طریقوں سے اپنے ہنر کو بہتر سے بہتر بنانے کا موقع ملا۔ وہیں میں نے سیکھا کہ آپ اپنی میراث کی شناخت کو عصری جدت کے ساتھ کیسے جوڑتے ہیں۔

حماد الشمری کا کہنا ہےہر ریجن کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

وِرث میں روایتی فنون کے ذریعے قومی شناخت کو مستحکم کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ تنظیم نوجوان سعودیوں کو تربیت جبکہ ماہر کاریگروں کو اعزاز دیتی ہے۔
یہ تنظیم محسوس کیے جانے اور محسوس نہ کیے جانے والے، دونوں طرح کے ورثے کو محفوظ بناتی ہے اور مملکت کے اندر اور باہر اس معاملے میں آگاہی پیدا کرتی ہے۔
سعودی نوجوان کے مطابق فنِ تعمیر مملکت میں ثقافت کی زرخیزی کو ظاہر کرتا ہے۔
حماس الشمری نے کہا کہ ’ہر ریجن کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ مملکت کے جنوبی میں القط العسیری کی خاص سجاوٹ، حجاز میں پلاسٹر کا کام، نجد میں لکڑی اور مٹی سے ہنر کی نمائش اور مشرقی عمارتوں کا جمال جو اب تک اپنی رعنایوں کے ساتھ قائم ہے۔

ممدوح الحربی کے مطابق ماضی میں دستکاری والدین سے بچوں تک پہنچا کرتی تھی (فوٹو: عرب نیوز)

ان کے مطابق ’سب سے بڑا چیلنج ایک جدید معاشرے میں بہترین اور بے مثال انداز کے ساتھ قدیم طریقوں کی بحالی اور پرانی یادوں کو زندہ کرنا تھا۔ صبر اور تجسس  کے ساتھ ساتھ، بزرگوں اور ان افراد کے تجربات کی مدد سے جو طویل عرصے سے اس ہنر سے وابستہ تھے، میں نے بہت کچھ سیکھا۔
ممدوح الحربی جو شہری ورثے پر تحقیق کے لیے جانے جاتے ہیں، ہنر کی اگلی نسل تک منتقلی کی اہمیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ورثے سے متعلق ہنر کی جان، علم کی منتقلی میں ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس تمام کام کی حیثیت زندہ روایت کے بجائے کسی میوزیم میں رکھی گئی بے جان مصنوعات سے زیادہ کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں دستکاری، خاندانوں کے اندر رہتے ہوئے والدین سے بچوں تک پہنچا کرتی تھی۔ صنعتی ترقی اور شہری زندگی میں اضافے سے بہت سی سرگرمیاں کم ہوتی چلی گئی ہیں۔‘

ممدوح الحربی کا کہنا ہے صنعتی ترقی سے بہت سی سرگرمیاں کم ہو گئی ہیں (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن آج وژن 2030 اور نئی قانون سازی کی وجہ سے یہ رجحان پلٹ گیا ہے۔ وہ کام جو معدومی کے خطرے سے دو چار تھے اب روایتی کاریگری کی بدولت، امید افزا تخلیقی شعبے میں بدل رہے ہیں جس سے قومی شناخت اور معاشی ترقی باہم مربوط ہو رہے ہیں۔
دیگر سپیشلائزڈ مہارتوں میں مسودہ سازی بھی شامل ہے اور نوجوان دستکار یہ ہنر سیکھ رہے ہیں جو صدیوں پہلے رائج تھا۔
فیصل الجاراللہ ایک نوجوان ہنرمند ہیں اور مسودہ سازی میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس کام میں ان کا جذبہ غیرمتوقع طور پر پیدا ہوا۔
سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے جذبہ اس طرف نہیں لے کر گیا۔ میرا دل نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے مسودہ سازی کے محکمے میں کام کرنا پڑا۔ مجھے اس سے خوف بھی آیا اور بوجھ بھی لگا۔ لیکن اب میں یہ کام بہت جذبے کے ساتھ کرتا ہوں۔

فیصل الجاراللہ کا کہنا ہے کہ روایتی کاریگری اور ہنر آج بھی شناخت کی طاقتور علامتیں ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ’ سعودی عرب کے پاس اسلامی دنیا سے متعلق 27 فیصد مسودات ہیں اور بقول ان کے ’ان مسودات  کو محفوظ کرکے رکھنا ایک بھاری ذمہ داری ہے۔
مسودات علم اور سائنس کے متنوع خزانے ہیں جبکہ روایتی کاریگری اور ہنر آج بھی شناخت کی طاقتور علامتیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’ راویتی فنون کے ’رائل انسٹیٹیوٹ‘ اور ’وِرث‘ جیسے انیشی ٹِیوز نے مملکت کے ثقافتی منظر کو نئی شکل دی ہے اور دستکاروں اور ہنرمندوں کی مدد کی ہے۔‘
جب کوئی نوجوان اپنے اجداد کے ہنر کو سیکھتا ہے تو اسے نہ صرف دستی مہارت حاصل ہوتی ہے بلکہ ایک لحاظ سے وہ اپنے بزرگووں کے ساتھ جُڑ جاتا ہے اور اس میں حسِ ملکیت اور جذبۂ تفاخر بھی پروان چڑھنے لگتا ہے۔

 

شیئر: