پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی علاقوں سے سیلابی پانی تقریباً اُتر چکا ہے تاہم اس سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کا جائزہ تاحال مکمل نہیں ہوا۔
سیلاب سے اس مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھلی فارم بھی دریا بُرد ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان پیر محل، شورکوٹ اور کبیروالا کے علاقے میں رپورٹ ہوا ہے جہاں ہزاروں مچھلی فارم دریا بُرد ہو گئے ہیں۔
شورکوٹ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد حیات نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہیڈ سیندھنائی کو بچانے کے لیے مائی صفوراں بند میں شگاف کیا گیا جبکہ اسی دوران نکاسو کے تختے اُٹھانے میں دیر ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں مچھلی فارم تباہ ہوگئے۔‘
مزید پڑھیں
’میرے اپنے ایک مربع ایکڑ پر فارم تھے جو سارے پانی کے ساتھ بہہ گئے۔ یہ سب سے بڑا کلسٹر ہے جو کم سے کم 10 سے 12 ہزار ایکٹر پر مشتمل ہے۔ سب ختم ہو گیا ہے۔ مچھلی تیار تھی اور دو ماہ بعد مارکیٹ میں آنے والی تھی۔ بس اب ہم خاموشی سے بیٹھے ہیں۔‘
محمد حیات نے مزید بتایا کہ ’ان کے فارم کو کم سے کم 5 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ اُن کے کل 25 فارم تھے۔اس پوری پٹی میں پنجند پر اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
’کبھی راوی نے اس علاقے میں اس سے پہلے تباہی نہیں پھیلائی تھی۔ یہاں پر لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ ہم نے فی ایکڑ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے کے حساب سے زمین کرائے پر لے رکھی تھی۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم گذشتہ کئی برسوں سے فش فارمنگ کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ تو ہماری کمر ہی ٹُوٹ گئی ہے۔ ابھی تو ہم اپنے فارم دیکھنے بھی نہیں جا رہے کہ کیا دیکھیں گے وہاں جا کر؟‘
ہیڈ سیندھنائی سے نیچے بیلٹ میں پیر محل، عبدالحکیم، کوٹ اسلام، 25 پُل، قتال پور اور کنڈ سرگانہ تک پھیلے ہزاروں فش فارم اب خالی ہو چکے ہیں اور ساری مچھلی دریائی پانی کے ساتھ نکل گئی ہے۔
ایک اور مچھلی فارمر محمد علی نے بتایا کہ ’رواں سال موسمِ سرما کے دوران مچھلی بہت کم مقدار میں مارکیٹ میں آئے گی، اوپر سیالکوٹ میں بھی سنا ہے فارم نہیں بچے اور بڑا کلسٹر منڈی بہاؤالدین کے پاس تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔‘

ان کے مطابق ’اس مرتبہ مچھلی کی طلب پوری نہیں ہو گی جس سے لامحالہ اس کے گوشت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے۔‘
مچھلی فارمز کی تباہی کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کا موقف ہے کہ یہ فارم دریا کے راستے پر بنائے گئے تھے، لہٰذا انہیں یہاں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔
شورکوٹ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی ایکٹیوسٹ ایڈووکیٹ شاہد کَنگ نے بتایا کہ ’نکاسو کے تختے بروقت نہ کھولنے کی وجہ سے مچھلی فارم تو ختم ہوئے ہی ہیں کیونکہ یہ نکاسو کے اردگرد ہی بنے ہوئے تھے اور ہمارے خیال میں یہ غیرقانونی ہیں۔‘
’ہم ہائی کورٹ جا رہے ہیں کہ اس علاقے سے مچھلی فارمز کا خاتمہ کیا جائے، یہ دریائی راستہ ہے، ایک تو سیلاب کا پانی آیا اور دوسرا ان فارمز میں لاکھوں کیوسک پانی پہلے ہی جمع تھا جس سے ہمیں دہرے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
’دیہاتوں کے دیہات اس پانی سے ختم ہو گئے ہیں جس سے مقامی آبادی کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اگر یہ مچھلی فارم یہاں نہ ہوتے تو اِتنا نقصان نہیں ہونا تھا۔‘
