پاکستان کے بینکاری نظام میں جولائی اور اگست 2025 کے دوران ایک غیرمعمولی رجحان دیکھنے کو ملا جب کمرشل بینکوں سے ایک کھرب تین ارب روپے سے زائد رقم نکالی گئی۔ اتنی بڑی رقم نکالنے کے باعث بینکوں کے مجموعی ذخائر 35 کھرب 49 ارب روپے سے سکڑ کر 34 کھرب 46 ارب روپے تک آ گئے۔
ماہرین کے نزدیک یہ بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے جو صارفین کے رویوں، حکومتی پالیسیوں اور بینکاری نظام کے اعتماد سے جڑا ہوا ہے۔
سٹیٹ بینک یا دیگر اداروں نے یہ معلومات فراہم نہیں کیں کہ یہ رقوم کس تناسب سے سونے، زمین، ڈالر یا سٹاک مارکیٹ میں لگائی گئی ہیں، تاہم دستیاب اعداد و شمار اور رجحانات واضح کرتے ہیں کہ اس رقم کا ایک بڑا حصہ قومی بچت سکیموں کی طرف منتقل ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پراپرٹی کی نئی قیمتوں کے تعین سے ریئل سٹیٹ سیکٹر کتنا متاثر؟Node ID: 625071
-
پاکستان میں سونے کے تاجر کاروبار کیوں بند کر رہے ہیں؟Node ID: 882507
جولائی 2025 میں نیشنل سیونگز سکیمز میں 44 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی جو جون میں تقریباً 29 ارب روپے رہی تھی۔
جنوری 2025 کی رپورٹ میں بھی قومی بچت سکیموں میں 31 ارب روپے کی نئی سرمایہ کاری دکھائی گئی تھی، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ بینکوں کے بجائے حکومت کے بانڈز اور سرٹیفکیٹس کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق لوگوں کی جانب سے اتنی بڑی رقوم نکالنے کی ایک بڑی وجہ شرح سود میں کمی ہے۔ گذشتہ برس جب پالیسی ریٹ 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا تو ڈپازٹس پر منافع قدرے پرکشش تھا، مگر اب مرکزی بینک نے اسے کم کر کے 11 فیصد کر دیا ہے۔
اس کی وجہ سے بینک ڈپازٹس پر واپسی کی شرح اس سطح پر آ گئی ہے کہ وہ افراطِ زر کے دباؤ کو بھی سہہ نہیں پا رہی۔ ایسے ماحول میں صارفین اور سرمایہ کار اپنی رقوم کو زیادہ منافع بخش یا کم از کم محفوظ اثاثوں کی طرف منتقل کرنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے سونے، ریئل سٹیٹ، سٹاک مارکیٹ اور غیرملکی کرنسی کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان میں سونا ہمیشہ سے ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے اور حالیہ مہینوں میں اس کی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس صورت حال کے حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سابق سربراہ ڈاکٹر اکرام الحق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب لوگ بینکوں پر اعتماد کھو دیتے ہیں اور حکومتی پالیسی غیرواضح ہوتی ہے تو وہ اپنی رقوم ان اثاثوں میں منتقل کرتے ہیں جنہیں وہ زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ڈالر، سونا اور ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ رجحان معیشت کو مزید غیردستاویزی بنا دیتا ہے اور حکومت کے لیے محصولات کی وصولی کو مشکل کر دیتا ہے۔‘

خیال رہے کہ اس رجحان کے پیچھے ٹیکس پالیسیوں کا دباؤ بھی کارفرما ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور نان فائلرز کو وارننگ جاری کی جا رہی ہیں کہ ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے بیانات نے صارفین کو مزید محتاط کر دیا ہے اور وہ بینکوں میں رقوم رکھنے کے بجائے نقد رقم یا متبادل ذرائع کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ ٹیکس حکام کی نظر سے بچے رہیں۔
اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستانی بینک زیادہ تر اپنی رقوم حکومتی بانڈز اور سکیورٹیز میں لگاتے ہیں، جس سے نجی شعبے کو قرض دینے کی گنجائش محدود ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں کاروباری حضرات اپنی رقم براہِ راست اپنے کاروبار یا پراپرٹی میں لگانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ ’بینکوں سے رقوم نکلوانا صرف مالیاتی غیریقینی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ٹیکس اور دستاویزی معیشت کے خلاف مزاحمت بھی ہے۔ جب عوام کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے اثاثے ٹیکس کے دائرے میں آئیں گے تو وہ انہیں رسمی نظام سے باہر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر ایسا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اثاثے بینکوں اور دستاویزی معیشت میں رکھنے کو محفوظ سمجھیں۔‘

ماہرین متفق ہیں کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو بینکاری صنعت کو لیکویڈیٹی کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت کم ہو گی، جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ دوسری جانب اگر بھاری سرمایہ ریئل سٹیٹ یا سونے کی مارکیٹ میں جاتا رہا تو وہاں بھی صورتحال غیرمعمولی ہو سکتی ہے جو مستقبل میں مالیاتی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔