پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں پیر کو شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے بدھ کو تیسرے روز بھی جاری ہیں اور تمام شہروں میں کاروباری مراکز بند اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل ہے۔
اس کے علاوہ تمام اضلاع میں نجی تعلیمی ادارے بھی بند ہیں جبکہ سرکاری دفاتر میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان مظاہروں کو منظم کرنے والے پلیٹ فارم جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے منگل کو اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تمام اضلاع سے مظاہرین بدھ کو دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔‘
مزید پڑھیں
یہ اعلان عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے مظاہرین سے خطاب میں کیا اور بعد میں ایک آڈیو پیغام بھی اپنے آفیشل فیس بُک پیج سے جاری کیا۔
مذاکرات کے متعلق شوکت نواز میر نے کہا ہے کہ ’جب تک ریاست میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بحال نہیں ہوتیں، رینجرز کو واپس نہیں بلایا جاتا، مظفر آباد میں قتل عام کے مجرم گرفتار نہیں ہوتے ریاست سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔‘
اس سے قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر فیصل راٹھور نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’میں حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے ایکشن کمیٹی کو کھلے دل سے مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں، ریاست اس وقت ایک بحرانی کیفیت میں ہے اور حکومت آزاد کشمیر اپنی عوام کو اس عہد کا یقین دلاتی ہے کہ آپ کے جان و مال کے تحافظ کی ذمہ داری ہماری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ریاست کے کے امن کو بحال رکھا جائے، لاک ڈاؤن مودی سرکار کی قائم کردہ روایت ہے، کوئی بھی معاملہ بات چیت کے بغیر حل نہیں ہو سکتا، ماضی میں بھی ہم نے ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا۔‘
دوسری جانب منگل کو دارالحکومت مظفرآباد، راولاکوٹ، باغ، کوٹلی، بھمبھر، میرپور، نیلم ویلی، ڈڈیال سمیت دیگر شہروں میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے مختلف اضلاع کو آپس میں ملانے والے مقامات پر دھرنے دیے۔
کشمیر کے پونچھ ڈویژن کو پنجاب سے ملانے سے والے آزاد پتن پُل پر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہیں جبکہ مظفرآباد کو خیبر پختونخوا سے ملانے والے مقام برارکوٹ میں بھی مظاہرین بڑی تعداد میں پہنچ گئے ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق منگل کو مظفرآباد شہر کے علاقوں چھتر دومیل، بینک روڈ اور بیلہ نور شاہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفوں وقفوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

پولیس نے آنسو گیس کی شلینگ کر کے مظاہرین کو منتشر کیا۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات منظور نہ ہونے اور گذشتہ برس دسمبر میں ہونے والے معاہدے کے تمام نکات پر عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف 29 ستمبر کو ریاست گیر شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دی تھی۔
ہڑتال سے چار دن قبل 25 ستمبر کو پاکستان کی وفاقی حکومت کے نمائندے وزیر امور کشمیر امیر مقام اور وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے دارالحکومت مظفرآباد گئے تھے۔
مظفرآباد میں اسلام آباد کے نمائندوں اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے درمیان طویل مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے جس کے بعد مظاہرین کے نمائندوں نے 29 ستمبر کی ہڑتال کی کال برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
ہڑتال سے ایک روز قبل کشمیر کے تمام علاقوں میں موبائل فون اور ہر طرح کی انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی تھی جو کہ تاحال معطل ہے۔
