Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راولپنڈی: 81 سالہ خاتون کی عطیہ کردہ آنکھوں کے قرنیوں نے دو فوجیوں کی دنیا روشن کر دی

ڈاکٹر خالد اقبال کہتے ہیں کہ آنکھوں کے قرنیے کے عطیے اور پیوندکاری کا ایک باقاعدہ اور حساس طبی عمل ہوتا ہے۔ (فائل فوٹو: میری ریور)
اگر آپ مر جائیں اور آپ کی آنکھوں کے قرنیے کسی دوسرے بیمار یا زخمی انسان کے کام آ جائیں، اور اس کی بینائی واپس لوٹ آئے، تو شاید یہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا نیک عمل ہو۔ ایک ایسا کام جو مرنے کے بعد بھی کسی اور کی زندگی میں روشنی لے آئے۔
ایسا ہی روشن اور انسانیت سے بھرپور قدم راولپنڈی کی 81 نرس کی عمر میں دنیا سے گزر جانے والی وسیمہ عسکری نے اٹھایا۔ اُن کی عطیہ کردہ آنکھوں کے قرنیے سی ایم ایچ راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے دو زخمی جوانوں کو پیوند کیے گئے، جس کے نتیجے میں دونوں کی بینائی بحال ہو گئی۔
پاکستان میں مرنے کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان بہت عام نہیں، تاہم آہستہ آہستہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور زندگی میں ہی اپنے اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کر دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک خاتون کے عطیہ کردہ قرنیے سے دو فوجی جوانوں کو نئی روشنی ملی ہے۔
راولپنڈی کی رہائشی وسیمہ عسکری نے اپنی زندگی ہی میں وصیت کی تھی کہ ان کی آنکھوں کے قرنیے ایسے مریضوں کو عطیہ کر دیے جائیں جنہیں اس کی سخت ضرورت ہو۔

’یہ میرے لیے سب سے بڑی خوش نصیبی ہو گی‘

اردو نیوز نے اس بارے میں ان کے بیٹے حسن عسکری سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور 81 برس کی عمر میں بھی دوسروں کے کام آنے کا جذبہ ان میں بھرپور موجود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ اگر میری آنکھوں کی روشنی کسی دوسرے کو واپس مل سکتی ہے تو یہ میرے لیے سب سے بڑی خوش نصیبی ہو گی۔‘
گذشتہ دنوں وہ بیمار تھیں اور علاج کے لیے سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل تھیں۔ لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور تین اکتوبر کی دوپہر دنیا سے گزر گئیں۔
حسن عسکری نے بتایا کہ ’وفات سے کچھ دن پہلے بھی ڈاکٹروں نے ان سے بات کی تو انہوں نے مکمل ہوش و حواس میں ایک بار پھر اپنی وصیت دہرائی کہ ان کی آنکھوں کے قرنیے ضرور عطیہ کیے جائیں۔‘
ان کے اہلخانہ نے بھی ان کے فیصلے کی بھرپور حمایت کی۔ حسن عسکری کے مطابق ’ہم سب نے انہیں سپورٹ کیا کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ اس سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں ہو سکتا۔‘

وسیمہ عسکری کی عطیہ کردہ آنکھوں کے قرنیے سی ایم ایچ راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے دو زخمی جوانوں کو پیوند کیے گئے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

تین اکتوبر کو وسیمہ عکسری کے انتقال کے بعد فوری طور پر ان کے قرنیے حاصل کیے گئے، اور اگلے گھنٹے میں پاکستانی فوج کے دو زخمی جوانوں کو پیوند کیے گئے اور دونوں جوانوں کی بینائی واپس آ گئی۔

’عام شہریوں کو اس کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا

اعضا کی پیوندکاری کا یہ آپریشن سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہوا جس میں اے ایف آئی او اسپتال کے عملے نے بھی حصہ لیا۔
آنکھوں کے قرنیے کے عطیے اور اس کی پیوندکاری کا عمل کس طرح انجام دیا جاتا ہے، اس حوالے سے جرمنی میں مقیم ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر خالد اقبال کہتے ہیں کہ آنکھوں کے قرنیے کے عطیے اور پیوندکاری کا ایک باقاعدہ اور حساس طبی عمل ہوتا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ قرنیہ دراصل آنکھ کا شفاف حصہ ہوتا ہے جو روشنی کو ریٹینا تک پہنچاتا ہے۔ اگر یہ خراب ہو جائے تو انسان کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔ عطیہ دینے والے شخص کی موت کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ سے آٹھ گھنٹوں کے اندر قرنیہ نکالا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس وقت آنکھ کی بافتیں محفوظ حالت میں ہوں۔
ڈاکٹر خالد اقبال کا کہنا تھا کہ عطیہ کیا گیا قرنیہ خصوصی محلول میں محفوظ کیا جاتا ہے اور 24 سے 48 گھنٹے کے اندر ضرورت مند مریض کو پیوند کیا جاتا ہے۔ کامیاب پیوندکاری کے بعد مریض چند دن میں معمول کی روشنی دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے، اگرچہ مکمل بحالی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

وسیمہ عسکری کے اہلخانہ نے ان کے فیصلے کی بھرپور حمایت کی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں اپنے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان زیادہ کیوں نہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم سے عضو نکالنا مذہب کے خلاف ہے، حالانکہ متعدد اسلامی سکالرز اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ اگر اس سے کسی انسان کی جان یا بینائی بچائی جا سکتی ہے تو یہ عمل عین ثواب کا کام ہے۔‘
’ایک اور بڑی وجہ قانونی اور انتظامی پیچیدگیاں ہیں۔ پاکستان میں اعضا کے عطیے کے لیے باقاعدہ اجازت اور رجسٹریشن کا نظام ابھی محدود سطح پر ہے۔ عام شہریوں کو اس کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا، اور ہسپتالوں میں ٹرانسپلانٹ کے لیے درکار سہولیات بھی ہر جگہ دستیاب نہیں۔‘

 

شیئر: