Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرانے جہاز، مہنگا ایندھن: عالمی بحران پاکستانی فضائی صنعت کیسے متاثر کر رہا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’فضائی بحران کے پیشِ نظر پاکستان کے لیے یہ وقت فوری اقدامات کرنے کا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دنیا بھر کی فضائی صنعت ایک نئے بحران میں داخل ہو چکی ہے، ایسا بحران جس کے اثرات صرف نیو یارک، پیرس، افریقہ یا لندن تک محدود نہیں بلکہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں تک پہنچ چکے ہیں۔
بین الاقوامی فضائی تنظیم ایاٹا (آئی اے ٹی اے) نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ’عالمی سطح پر طیاروں اور پُرزہ جات کی فراہمی میں رکاوٹوں نے پوری انڈسٹری کو متاثر کیا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ’2025 میں دنیا کی ایئرلائنز کو مجموعی طور پر 11 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘
یہ بحران صرف اعدادوشمار کا نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان کی فضائی کمپنیوں کی بقا کا سوال بن چکی ہے۔
رپورٹ کیا کہتی ہے؟
ایاٹا اور عالمی مشاورتی فرم اولیور وائمن کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق ’دنیا بھر میں طیاروں کی فراہمی شدید تاخیر کا شکار ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’سنہ 2024 تک تجارتی طیاروں کا بیک لاگ یعنی زیرِ التوا آرڈرز 17 ہزار سے تجاوز کر چکا ہے، جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔‘
’اس تاخیر نے نہ صرف ہوائی جہاز بنانے والی کمپنیوں بلکہ دنیا بھر کی ایئرلائنز کے لیے بھی سنگین مالی اور عملی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق ’طیارہ سازی کی رفتار میں کمی کے باعث فضائی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔‘
’صرف ایندھن کے اخراجات میں ہی 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، کیونکہ ایئرلائنز کو نئے اور ایندھن بچانے والے جہازوں کے بجائے پُرانے اور کم مؤثر طیارے استعمال کرنا پڑ رہے ہیں۔‘
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’اسی طرح مُرمت کے اخراجات میں 3 ارب 10 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، کیونکہ پُرانے طیارے زیادہ بار مُرمت کے متقاضی ہوتے ہیں۔‘
مزید برآں لیزنگ یعنی کرائے پر انجن حاصل کرنے کی لاگت میں 2 ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا، کیونکہ طیاروں کے انجن مُرمت کے دوران زیادہ عرصہ زمین پر رہنے لگے ہیں۔
اسی طرح غیر یقینی سپلائی چین کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایئرلائنز نے اپنے سپیئر پارٹس کے ذخیرے میں اضافہ کیا ہے، جس پر مزید 1 ارب 40 کروڑ ڈالر کا خرچ آیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’2025 میں دنیا کی ایئرلائنز کو مجموعی طور پر 11 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی
پاکستان جیسے ممالک، جو معاشی طور پر محدود وسائل رکھتے ہیں، کے لیے یہ صورتِ حال غیرمعمولی طور پر تشویش ناک ہے۔
یہاں کی ایئرلائنز خصوصاً پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)، ایئر بلیو اور حال ہی میں بند ہونے والی سیرین ایئر، عموماً نئے طیارے خریدنے کے بجائے استعمال شدہ طیارے یا ڈرائی لیز (یعنی بغیر عملے کے طیارے کرائے پر لینا) کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرتی ہیں۔
تاہم اب ایک بڑی رکاوٹ سامنے آگئی ہے، جب بین الاقوامی ایئرلائنز کو خود نئے طیارے نہیں مل رہے، تو وہ اپنے پرانے طیارے فروخت کرنے کے بجائے خود ہی استعمال میں لا رہی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان جیسی ایئرلائنز کے لیے استعمال شدہ جہازوں کی دستیابی کم ہو گئی ہے، جبکہ ان کی قیمت اور لیزنگ کی رقم بھی بڑھ گئی ہے۔
 سیرین ایئر کی بندش
پاکستان کی نجی ایئرلائن سیرین ایئر نے حال ہی میں اپنے آپریشنز بند کیے ہیں اور اپنی پروازوں کی معطلی کو ایک عارضی انتظامی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’کمپنی جلد سے جلد اپنے آپریشنز بحال کرے گی۔‘
سیرین ایئر کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے مسافروں کی سلامتی اور اعتماد کو اولین ترجیح دیتی ہے۔‘

اب پاکستانی کمپنیوں کو پُرانے طیارے کرائے پر لینے کے لیے زیادہ وقت اور زیادہ رقم درکار ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

یہ معاملہ کسی ایک کمپنی کا نہیں بلکہ یہ صورتِ حال عیاں کرتی ہے کہ عالمی سطح پر پیداوار اور پُرزہ جات کی کمی نے پاکستان کے فضائی نظام کو براہِ راست متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔
 پرانے جہاز، مہنگا ایندھن اور بڑھتی لاگت
پی آئی اے کے بیشتر طیارے 15 سے 20 سال پرانے ہیں۔ نئے طیاروں کی خریداری فی الوقت ممکن نہیں، اس لیے کمپنی کو پُرانے جہازوں کو زیادہ عرصہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایندھن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، مُرمت کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے اور شیڈول میں تاخیر عام ہوتی جا رہی ہے۔
ایوی ایشن تجزیہ کار اور سینیئر صحافی راجا کامران کے مطابق ’جب پرانے جہاز زیادہ اُڑان بھرتے ہیں تو صرف لاگت ہی نہیں بڑھتی بلکہ مسافروں کے لیے تاخیر، تکنیکی اور سروس کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔‘
عالمی منڈی میں تبدیلی، پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
راجا کامران کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں استعمال شدہ طیاروں کی مارکیٹ محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ایئربس اور بوئنگ کی پیداوار میں سُست روی نے بڑے فضائی اداروں کو اپنے پرانے بیڑے برقرار رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘

 دنیا بھر میں ایئرلائنز کم لاگت والے مُرمت شدہ مگر قابلِ اعتماد پرزے استعمال کر رہی ہیں (دائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے بتایا کہ ’اب صورت حال یہ ہے کہ جو طیارہ پہلے پانچ سے سات سال استعمال کے بعد مارکیٹ میں فروخت ہوتا تھا، وہ اب 10 سے 15 سال بعد فروخت ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستانی کمپنیوں کو پُرانے طیارے کرائے پر لینے کے لیے زیادہ وقت اور زیادہ رقم درکار ہے۔‘
 پاکستان کے پیشِ نظر ممکنہ راستے کیا ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی فضائی بحران کے پیشِ نظر پاکستان کے لیے یہ وقت فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کا ہے۔ اگر حکومت اور نجی شعبے نے مل کر منصوبہ بندی نہ کی تو ملکی فضائی صنعت کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت ہے کہ مُرمت کی مقامی صلاحیت (ایم آر او) کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں موجود ورکشاپس کو جدید سہولتوں سے آراستہ کر کے عالمی معیار کے مطابق لایا جانا چاہیے تاکہ پاکستان خود پُرزہ جات کی مُرمت اور تیاری کی صلاحیت حاصل کر سکے۔ 
اس اقدام سے نہ صرف غیر ملکی انحصار کم ہوگا بلکہ ملکی سطح پر روزگار اور تکنیکی مہارت میں بھی اضافہ ہوگا۔
دوسرا اہم قدم استعمال شدہ پُرزوں کو استعمال میں لانا ہے۔ دنیا بھر میں ایئرلائنز کم لاگت والے مُرمت شدہ مگر قابلِ اعتماد پرزے استعمال کر رہی ہیں۔ 
پاکستان میں اس حوالے سے واضح قانون سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایئرلائنز اعتماد کے ساتھ ایسے پُرزے استعمال کر سکیں اور اخراجات میں کمی لا سکیں۔
علاوہ ازیں علاقائی تعاون اور مشترکہ معاہدے بھی پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ترکیے، متحدہ عرب امارات، قطر اور ملائیشیا جیسے ممالک کے ساتھ پُرزہ جات، مُرمت اور تکنیکی معاونت کے معاہدے کیے جا سکتے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں فوری مدد دستیاب ہو۔

شیئر: