Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں ’انتہاپسند جتھوں کے خلاف سخت ترین کارروائی‘ کا فیصلہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے کہا ہے کہ ’انتہا پسند گروہوں کے سہولت کاروں اور حامیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔‘
جمعرات کو لاہور میں وزیراعلیٰ مریم نواز کی صدرات میں ہونے والے اجلاس میں ’ریاستی رِٹ‘ کو چیلنج کرنے والے افراد اور گروہوں سے ’آہنی ہاتھوں سے نمٹنے‘ سمیت کئی فیصلے کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے چند دن قبل لاہور سے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا جس کے بعد پیر کی صبح لاہور کے نواحی شہر مریدکے میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کریک ڈاؤن کر کے لانگ مارچ کے شرکاء کو منتشر کر دیا تھا۔
اس کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت سمیت متعدد افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے اور پولیس ابھی تک اس جماعت کے سرکردہ ارکان کی گرفتاریوں کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے بھی مار رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’اجلاس میں پنجاب حکومت نے احتجاج کے نام پر خون ریزی، شرانگیزی اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے خلاف آہنی گھیرا مزید تنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
بیان کے مطابق ’پنجاب حکومت کا عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر 400 لاشوں والے اشتعال انگیز جھوٹے بیان پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔‘
پنجاب حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ ’ریاست کا ہدف فساد ہے، کوئی مذہبی جماعت یا عقیدہ نہیں۔ کارروائیاں صرف اُن کے خلاف ہیں جو امن برباد کرنے کی تاریخ کے حامل ہیں۔‘
’اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں مساجد کے منبروں اور مدارس کے فورمز کو نفرت، انتشار یا تشدد کے فروغ کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے۔‘

پنجاب حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ ’ریاست کا ہدف فساد ہے، کوئی مذہبی جماعت یا عقیدہ نہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’مدارس کے تقدس کو مجروح کرنے اور بچوں کے ذہنوں میں نفرت یا تشدد کے بیج بونے والوں کے خلاف دہشت گردی کے قوانین کے تحت کارروائی ہو گی۔‘
سرکاری بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’پنجاب بھر میں سیکشن 144 نافذالعمل ہے، خلاف ورزی پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوں گے۔‘
اس سے قبل 14 اکتوبر کو پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ایف آئی اے لاہور شواہد کی بنیاد پر مذہبی جماعت کے متعدد اور اہم عہدے داروں اور کارکنوں کے اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔‘
اس کے بعد ٹی ایل پی نے ایک بیان میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ’ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ حکومت ایک مرتبہ پھر کوئی سنگین قدم اٹھانے جا رہی ہے۔‘
ٹی ایل پی نے حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ اپنی تحویل میں موجود کارکنوں کے نام بتائے جائیں، کہا تھا کہ ’اگر حافظ سعد حسین رضوی کو کچھ ہوا تو حالات کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔‘

شیئر: