Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موچی دروازہ: لاہور کی قدیم جلسہ گاہ جہاں ’اب صرف یادیں ہیں‘

لاہور کے موچی دروازے میں داخل ہوتے ہی دونوں اطراف میں خشک میوہ جات اور پلاسٹک کی اشیا کی دکانوں کی بھرمار ہے۔ بِھیڑ کا وہی عالم ہے جو اندرون لاہور کا نام سنتے ہی ذہن میں آتا ہے۔ اسی بِھیڑ میں داخلی راستے کے دائیں طرف اپنی لوہے کی ہَتھ ریڑھی پر بیٹھے بزرگ محمد رفیق اطیمنان سے آنے جانے والے راہگیروں کو دیکھ رہے ہیں اور شاید اپنی اگلی مزدوری کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ ان سے چند میٹر کے فاصلے پر مشہور زمانہ موچی دروازے کا گروانڈ ہے جہاں بڑی بڑی کرینیں مستعدی سے تعمیراتی کام میں جُتی ہیں۔
اندرون لاہور کے کاروباری افراد اور تاجر دل ہی دل میں ان کرینوں کو ’حملہ آور‘ سمجھ رہے ہیں لیکن اس موضوع پر کیمرے پر بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک طرح سے تاجروں جو یہاں پانچ پانچ دہائیوں سے بیٹھے ہیں ان کو دربدر کرنے کے درپے ہے۔ ایک تاجر کا کہنا تھا کہ ’ہم انٹرویو دیں تو فون آ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی جان عزیز ہے ہم حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘
ہوا کچھ یوں ہے کہ پنجاب حکومت نے حال ہی میں اندرون لاہور کو اپنی اصلی شکل میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور موچی دروازے پر ہونے والا تعمیراتی کام اس کا آغاز ہے۔ تمام تاجروں کو چھ مہینے تک کے نوٹس دیے گئے ہیں کہ وہ اپنی دکانیں خالی کر دیں۔ جبکہ موچی دروازہ گراونڈ میں لگی سرکاری تختی اور نقشہ یہ بتا رہا ہے کہ یہاں ایک زیر زمین پارکنگ پلازہ اور مارکیٹ بنائی جا رہی ہے۔ جہاں موچی دروازے کے تمام تاجروں کو منتقل کر دیا جائے گا اور داخلی دروازے سے تجاوزات ختم کر کے اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا۔
محمد رفیق واحد فرد ہیں جو کھل کر اس موضوع پر بات کرنے کو تیار ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں پچاس سال سے یہاں کام کر رہا ہوں، میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، میں چھوٹا سا بچہ تھا جب یہاں آیا۔ اس وقت ہوٹل پر کام کرتا تھا، تھوڑا جوان ہوا تو ہَتھ ریڑھی چلانا شروع کی جو آج تک چلا رہا ہوں۔ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ اچھا ہے۔ یہاں سڑک پر اتنا رش ہوتا ہے کہ بندہ گزر نہیں سکتا۔ لیکن تاجر اس سے ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا نقصان ہو گا۔ ابھی تو باہر دکانوں پر ان کی کروڑوں کی سیل ہے۔ جب دکانیں زیرزمین چلی جائیں گی تو کاروبار پر اثر پڑے گا۔‘
موچی گیٹ پر ہی اپنی ساری زندگی گزار دینے والے محمد رفیق بتاتے ہیں کہ ’میں نے اس گراونڈ میں سب سیاستدانوں کو سنا ہے۔ میں نے فاطمہ جناح کو سنا تھا اس وقت میں بچہ تھا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر یہاں سنی، پھر بے نظیر، نواز شریف اور شہباز شریف سب کے جلسے دیکھے۔ اس دور میں جب یہ آواز لگ جاتی تھی کہ موچی دروازے کا گراونڈ بھر گیا ہے تو جلسہ کامیاب تصور ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جلسے منٹو پارک میں منتقل ہو گئے۔ اب صرف یہاں یادیں ہیں۔‘

موچی دروازے کی اصل شکل میں بحالی کے منصوبے سے مقامی تاجر پریشان ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

موچی دروازہ اور موچی باغ : یہ نام کیسے پڑا؟

تاریخی کتب میں ہے کہ لاہور کی فصیل میں یہ دروازہ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں 1575-1581 کے درمیان فصیلِ لاہور کی توسیع کے دوران بنایا گیا۔  شروع میں اس کا نام ’مورچہ دروازہ‘ تھا کیونکہ یہ فوجی مورچے کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ روایت ہے کہ اس کے بعد  یہاں تعینات ایک سپاہی موتی رام کے نام سے یہ ’موتی دا دروازہ‘ کہلایا  اور بعد میں اندرون دروازہ چمڑے اور گھوڑوں کے سازوسامان کی دکانوں اور کاریگروں کے باعث موچی دروازہ بن گیا۔
 دروازے کے اندر اور اردگرد کے محلوں ناموں سے ظاہر ہے کہ یہاں ابتدا میں مغل فوج کے پیادے اور سوار بستے تھے، محلہ تیرہ گراں، کماں گراں، لٹھ ماراں، چابک سواراں، بندوق سازاں، حماماں والی گلی وغیرہ۔ سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے فصیل کے باہر دشمن کو دور رکھنے کے لیے خندق بنوائی جسے انگریزوں نے 1857 کے بعد پاٹ کر فصیل کے ساتھ ساتھ سرکلر روڈ تک ایک خوبصورت باغ میں بدل دیا۔ موچی دروازے کے باہر والا حصہ مقامی طور پر ’باغ بیرون موچی دروازہ‘ کہلانے لگا جو چہل قدمی اور عوامی اجتماع کی جگہ بن گیا۔ یہی کھلا میدان آگے چل کر سیاسی جلسوں کا تاریخی ’سپیچ کارنر‘ بنا یعنی وہ جگہ جہاں کی تقریریں لاہور کی سیاسی نبض سمجھی جاتی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس میدان کو بعد ازاں سیاسی جلسوں کے لیے منتخب کیا گیا۔ جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے یہ دروازہ پرانا شہر، اکبری منڈی، شاہ عالمی، بھاٹی گیٹ وغیرہ کے درمیان ایک مرکزی ’گیٹ وے‘ تھا جہاں سے اندرونِ شہر کی تنگ گلیاں بھی جڑتی تھیں اور باہر کا ’نیا‘ لاہور بھی۔ فصیل کے باہر باغ ہونے کی وجہ سے یہاں بڑا مجمع بآسانی بیٹھ سکتا تھا اور جلوس اندرون شہر سے نکل کر سیدھا اسی میدان میں آ کر ختم ہوتے تھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ نے موچی دروازہ باغ کو اپنے سیاسی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا۔ فوٹو: اردو نیوز

سیاست اور ’موچی دروازہ‘ کب ایک ہوئے؟

اس باغ کی سیاسی کہانی کی جڑیں قیامِ پاکستان سے پہلے شروع ہوتی ہیں۔ جب انڈین نیشنل کانگریس نے 29 جولائی 1930 میں بریڈلے ہال میں اعلان آزادی کیا۔ تحریر ریکارڈ میں پہلا ’سیاسی اجتماع‘ اسی شام یہاں ہوا۔  صحافی و محقق مجید شیخ کے مطابق ’اسی روز یہ قرارداد باغ بیرون موچی دروازہ میں عوامی جلسے کے سامنے بھی پڑھی گئی اور کانگریس کے صدر جواہر لال نہرو نے صدارت کی۔ اس لیے موجود ریکارڈ کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلی واضح ’پارٹی بیسڈ‘ عوامی تقریر یا جلسہ جس کا حوالہ ہمیں ملتا ہے وہ 1930 کا کانگریس کا پُرن سواراج والا اجتماع ہے۔ اس سے پہلے کے اکٹھ مکمل طور پر سیاسی پارٹی کی طرح کے اکٹھ نہیں تھے۔‘
 بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ نے موچی دروازہ باغ کو اپنے سیاسی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا۔ صحافتی اور علمی حوالوں کے مطابق تقسیم سے قبل باغ بیرون موچی دروازہ یا موچی باغ میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد نے بطور کانگریس قیادت آزادی کی تحریک کے جلسوں میں تقریریں کیں  جبکہ مسلم لیگ کے جلسوں میں جب پاکستان بنانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان  نے بھی یہاں مجمع عام سے خطاب کیا۔
خیال رہے کہ علامہ اقبال نے 1912 میں جواب شکوہ اسی جگہ مجمعے کے سامنے پڑھی تھی۔ یہیں سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ’مسجد شب بھر‘ بھی موجود ہیں جس کا حوالہ انہوں نے اپنے ایک شعر میں دیا تھا۔

موچی باغ کو ایک جدید انڈرگراونڈ پارکنگ، مارکیٹ اور پارک میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

پاکستان بننے کے بعد  باچا خان، حسین شہید سہروردی، نوابزادہ نصراللہ خان، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف اور تقریباً ہر بڑی قومی جماعت کے قائدین نے 1980  کی دہائی تک یہاں بڑے جلسے کیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک  کسی سیاست دان کی حقیقی عوامی مقبولیت کا ’یارڈ سٹک‘ موچی باغ کا جلسہ سمجھا جاتا تھا۔
مجید شیخ کے مطابق ’شاید یہاں کے آخری بڑے مقرر میاں نواز شریف تھے جب وہ اپوزیشن میں تھے جب وہ اقتدار میں مضبوط ہو گئے تو ان ہی کے سب سے طاقتور حمایتی یعنی اندرون شہر کے تاجر طبقے نے اس تاریخی میدان کو گاڑیوں اور ٹرکوں کی پارکنگ میں بدل دیا  اور یہیں سے ’سپیچ کارنر‘ کی روایت کا عملی خاتمہ ہو گیا۔‘
وزیراعلی مریم نواز موچی دروازے کو اب واپس اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے ساتھ ساتھ موچی باغ کو ایک جدید انڈرگراونڈ پارکنگ، مارکیٹ اور پارک میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں جو کہ یہاں کے تاجروں کے لیے اس وقت ایک ناخوشگوار صورتحال کا باعث ہے۔

 

شیئر: