بنگلہ دیش: ڈھاکہ میں میں پیٹرول بم حملوں کے سلسلے میں ایک شخص گرفتار
بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں سیاسی اور ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں کل نامعلوم حملہ آوروں نے مختلف علاقوں میں سات دیسی پیٹرول بم پھینکے، جن میں سے ایک حملہ عبوری رہنما محمد یونس سے منسلک ایک عمارت پر بھی کیا گیا۔
پولیس کے مطابق، ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈھاکا میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا کہ ان حملوں کے سلسلے میں ایک 28 سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق، گرفتار شخص شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کا رکن ہے، جس کی آمرانہ حکومت اگست 2024 میں ایک خونریز بغاوت کے نتیجے میں برطرف کر دی گئی تھی۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ مشتبہ شخص سے ’متعدد واقعات کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔‘
ان حملوں میں جمعہ کی رات سینٹ میری کیتھیڈرل اور ڈھاکا کے ایک کیتھولک سکول پر پیٹرول بم حملے بھی شامل ہیں، جن میں بھی کوئی زخمی نہیں ہوا۔
پیر کی صبح مزید پیٹرول بم حملے گرامین بینک کے دفاتر پر کیے گئے، یہ وہ مائیکروفنانس ادارہ ہے جس کی بنیاد نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے رکھی تھی۔
دیگر اہداف میں یونس کی کابینہ کی رکن فریده اختر سے منسلک ایک تجارتی عمارت، دو بسیں اور ایک ہسپتال شامل تھے۔
یہ حالیہ واقعات بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتیں اگلے عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں جو توقع ہے کہ فروری 2026 میں ہوں گے۔
پولیس کے مطابق، سکیورٹی فورسز نے ’ان بزدلانہ اور ظالمانہ کارروائیوں میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کرنے کے لیے پورے شہر میں کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔‘
نومبر کے آغاز میں شروع ہونے والی انتخابی مہم تشدد سے متاثر ہوئی ہے۔
بدھ کے روز ایک انتخابی ریلی میں ایک شخص گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جبکہ دو دیگر افراد، جن میں ایک امیدوار بھی شامل تھا، زخمی ہوئے۔
بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں سیاسی اور ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ پولیس نے 1,300 سے زیادہ لوٹے گئے ہتھیاروں، جن میں مشین گنز، رائفلز اور پستول شامل ہیں، کی واپسی پر انعامات کا اعلان کیا ہے۔
ڈھاکہ کی ایک 32 سالہ یونیورسٹی لیکچرر، مشفقہ اسلام، نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ملک ’بغیر کسی سمت کے آگے بڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پہلے بھی تلخ تجربات کیے ہیں، اور اب مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں خود اس کا شکار نہ بن جاؤں۔‘
