بنگلہ دیش میں گرجا گھروں پر بم حملوں کے بعد مسیحی اقلیت خوف میں مبتلا
بنگلہ دیش میں گرجا گھروں پر بم حملوں کے بعد مسیحی اقلیت خوف میں مبتلا
اتوار 9 نومبر 2025 15:07
پہلا حملہ 8 اکتوبر کو دارالحکومت کے سب سے قدیم ہولی روزری کیتھولک چرچ ہر ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں گرجا گھروں اور سکول پر دیسی ساختہ بموں سے حملے کیے گئے جنہوں نے ملک کی مسیحی برادری کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پولیس نے اتوار کو بتایا کہ ان حملوں میں کوئی زخمی نہیں ہوا، لیکن یہ ’یقینی طور پر‘ دہشت پھیلانے کے لیے کیے گئے تھے۔
کسی گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ تقریباً 17 کروڑ کی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں 5 لاکھ افراد پر مشتمل مسیحی برادری کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔
ڈھاکہ پولیس کے ترجمان محمد طالب الرحمان نے کہا کہ ’ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا یہ واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں یا الگ الگ، لیکن یہ یقینی طور پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔‘
بنگلہ دیش میں سیاسی بحران جاری ہے جو ایک سال قبل شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہوا تھا۔
مسیحی مقامات پر حالیہ حملوں نے کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ سیاسی جماعتیں فروری 2026 میں ہونے والے انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔
چرچ جانے والے ایک شخص نے اتوار کو کہا کہ برادری میں ’عجیب سا خوف‘ پایا جاتا ہے۔ چرچ جاتے وقت ہم میں سے کئی افراد کو بے چینی محسوس ہوتی ہے۔‘
پہلا حملہ 8 اکتوبر کو ہوا جب دارالحکومت کے سب سے قدیم چرچ، ہولی روزری کیتھولک چرچ، پر ایک دیسی ساختہ بم پھینکا گیا۔ یہ چرچ 17ویں صدی میں پرتگالیوں نے قائم کیا تھا۔
جمعے کی رات حملہ آوروں نے دو مزید کیتھولک مقامات سینٹ میری کیتھیڈرل اور سینٹ جوزف سکول اینڈ کالج کو نشانہ بنایا۔
سینٹ جوزف سکول کے پرنسپل برادر چندن بینیڈکٹ گومز نے کہا کہ حملے سے ’بے چینی‘ پیدا ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کرسچن ایسوسی ایشن کے صدر نرمل روزاریو نے بتایا کہ سینٹ میری کیتھیڈرل کے سامنے ایک بم پھٹا، لیکن اگلے دن تقریباً 500 افراد عبادت کے لیے آئے۔
طالب الرحمان نے بتایا کہ کیتھیڈرل پر حملہ کرنے والے موٹر سائیکل پر آئے اور ’انہوں نے سکول کے احاطے میں ایک دیسی ساختہ بم پھینکا اور فرار ہو گئے۔‘
سینٹ جوزف سکول کے پرنسپل برادر چندن بینیڈکٹ گومز نے کہا کہ حملے سے ’بے چینی‘ پیدا ہوئی، لیکن کلاسز معمول کے مطابق ہوئیں۔
عبوری رہنما محمد یونس نے بارہا وعدہ کیا ہے کہ بغاوت کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات فروری میں مقررہ وقت پر ہوں گے چاہے پرتشدد واقعات ہوں۔