مالیاتی فراڈ کا شکار ہونے والے بینک صارفین کو کتنی رقم واپس ملی؟
مالیاتی فراڈ کا شکار ہونے والے بینک صارفین کو کتنی رقم واپس ملی؟
بدھ 12 نومبر 2025 5:36
زین علی -اردو نیوز، کراچی
بینکنگ صارفین کے زیادہ تر کیسز ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز، غلط چارجز اور آن لائن فراڈ سے متعلق تھے (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
پاکستان میں مالیاتی فراڈ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے دوران بینکنگ محتسب پاکستان نے رپورٹ کیا ہے کہ رواں سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران بینک صارفین کو ایک ارب 46 کروڑ روپے کی رقم واپس دلائی گئی۔
بینکنگ محتسب پاکستان کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2025 کے دوران صارفین کی 28 ہزار 704 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔
یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ عوام میں مالی آگاہی اور اپنے حقوق کے تحفظ کا شعور بڑھ رہا ہے، مگر ڈیجیٹل بینکنگ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ سائبر فراڈ کا خطرہ بھی بدستور موجود ہے۔
اپنی معلومات کسی پر اِفشا نہ کریں: بینکنگ محتسب کی تنبیہہ
بینکنگ محتسب پاکستان سراج الدین عزیز نے بینک صارفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اور مالی معلومات کسی تیسرے شخص پر اِفشا نہ کریں۔
سراج الدین عزیز کا کہنا تھا کہ ’کسی صارف کو اگر مشکوک کال یا پیغام موصول ہو، تو وہ فوراً اپنے بینک کی ہیلپ لائن یا قریبی برانچ سے رابطہ کرے، اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو اطلاع دے۔‘
ان کے مطابق ’عوام کو ایسے افراد سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو خود کو بینک کا نمائندہ ظاہر کر کے صارفین سے او ٹی پی، شناختی کارڈ نمبر یا اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ شکایات میں اضافہ، اعتماد یا خطرے کی گھنٹی؟
سال 2025 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران بینکنگ محتسب کے دفاتر کو روزانہ اوسطاً 90 سے 100 شکایات موصول ہوئیں۔
ان میں زیادہ تر کیسز ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز، غلط چارجز اور آن لائن فراڈ سے متعلق تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شکایات میں اضافہ ایک طرف عوامی اعتماد میں اضافے کی علامت ہے، لیکن دوسری طرف یہ اس بات کی یاددہانی بھی ہے کہ بینکنگ نظام کو مزید محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ: سہولت کے ساتھ خطرہ بھی
پاکستان میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران آن لائن اور موبائل بینکنگ نے غیرمعمولی ترقی کی ہے، لیکن اس سہولت نے جہاں لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی ہے، وہیں فراڈ کے نئے راستے بھی کھول دیے ہیں۔
سائبر فراڈ کا سب سے بڑا ہتھیار لاعلمی ہے۔ صارفین کا باخبر ہونا جعل سازوں کو فراڈ کرنے سے روک دے گا۔
رواں سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران بینک صارفین کو ایک ارب 46 کروڑ روپے کی رقم واپس دلائی گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سائبر سکیورٹی کے ماہر ڈاکٹر نعمان سید کے مطابق بیشتر کیسز میں متاثرہ صارفین کو اس وقت احساس ہوتا ہے جب وہ دھوکہ کھا چکے ہوتے ہیں اور اُن کے اکاؤنٹ سے رقم منتقل ہو چکی ہوتی ہے۔ خواتین اور بزرگ صارفین زیادہ متاثر ہوتے ہیں
تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین اور بزرگ شہری ایسے فراڈ کا سب سے زیادہ شکار بنتے ہیں۔ اُن کے پاس عموماً ڈیجیٹل بینکنگ کی تکنیکی معلومات کم ہوتی ہیں، اس کا فائدہ اٹھا کر فراڈیے انہیں آسانی سے جھانسہ دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔
بینکنگ محتسب کے دفتر کے مطابق اس طبقے کے لیے خصوصی آگاہی پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنی معلومات کے تحفظ میں مزید محتاط رہ سکیں۔ بینکنگ اداروں اور این سی سی آئی اے کا تعاون
بینکنگ محتسب پاکستان اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے درمیان تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
دونوں ادارے مل کر ایسے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جو جعلی کالز، ایپس یا ایس ایم ایس کے ذریعے صارفین کو نشانہ بناتے ہیں۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران ایسے کئی گروہ حراست میں لیے گئے ہیں جو خود کو بینک کا ملازم ظاہر کر کے صارفین سے اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کرتے اور اُن کے اکاؤنٹس سے رقم منتقل کرتے تھے۔
بینکنگ محتسب پاکستان نے جنوری سے اکتوبر 2025 کے دوران صارفین کی 28 ہزار 704 شکایات کا ازالہ کیا (فائل فوٹو: پِکسابے)
ایک ارب 46 کروڑ روپے کی واپسی، مگر اصل نقصان کہیں زیادہ
ایک ارب 46 کروڑ روپے کی ریکوری یقینی طور پر ایک بڑی کامیابی ہے، مگر ماہرین کے مطابق اصل نقصان اِس سے کہیں زیادہ ہے۔
بہت سے متاثرہ صارفین یا تو اپنی شکایات درج نہیں کراتے، یا انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس ادارے سے رجوع کریں۔
بینکنگ محتسب پاکستان نے اس حوالے سے عوامی سہولت کے لیے آن لائن شکایت فارم اور ہیلپ لائنز متعارف کرائی ہیں تاکہ شکایات کا اندراج آسان بنایا جا سکے۔ احتیاط ہی بہترین دفاع ہے
بینکنگ ماہرین کے مطابق فراڈ سے مکمل بچاؤ اُسی وقت ممکن ہے جب صارف خود محتاط رہے۔ بینک کبھی فون پر آپ سے او ٹی پی یا شناختی کارڈ نمبر طلب نہیں کرتا، اگر کوئی ایسا کرے تو فوراً شکایت درج کرائیں۔ اعتماد بحال مگر خطرہ برقرار
بینکنگ محتسب پاکستان کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ادارے فعال ہوں اور عوام باخبر رہیں تو مالی انصاف ممکن ہے۔
تاہم ایک ارب 46 کروڑ روپے کی ریکوری کے باوجود ڈیجیٹل فراڈ کا بڑھتا ہوا رُجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔