وائٹ ہاؤس کے باہر فائرنگ، ’افغان شہری امریکہ پہنچنے کے بعد شدت پسند بنا‘
وائٹ ہاؤس کے باہر فائرنگ، ’افغان شہری امریکہ پہنچنے کے بعد شدت پسند بنا‘
پیر 1 دسمبر 2025 11:01
محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم کا کہنا ہے کہ حملے سے جڑے تمام افراد کا تعاقب کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی حکام کو یقین ہے کہ وائٹ ہاؤس کے قریب گارڈز پر فائرنگ کرنے والا افغان شہری پہلے سے شدت پسند نہیں تھا بلکہ امریکہ آنے کے بعد بنا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم این بی سی اور اے بی سی کے پروگرام ’دس ویک‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حکام کا خیال ہے کہ مبینہ حملہ آور رحمان اللہ لکنوال واشنگٹن میں رہائش کے دوران بنیاد پرست بنا۔
’تحقیق کار ان کی فیملی کے افراد، دوستوں اور دوسرے افراد سے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس سے کچھ ہی فاصلے پر26 نومبر کو ہونے والے واقعے کے بعد حکام کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اس میں 29 سالہ افغان شہری ملوث ہے۔
اس واقعے میں ایک خاتون گارڈ ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ ایک شدید زخمی ہوا تھا۔
اس پر صدر ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں افغان اور دوسرے غیرملکی شہریوں کی جانچ پڑتال میں کمی کی طرف اشارہ کیا تھا حالانکہ رحمان اللہ لکنوال کو ٹرمپ کے دور میں ہی سیاسی پناہ دی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لمبے عرصے کے لیے پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ روکا جا رہا ہے۔
26 نومبر کو ہونے والے واقعے میں ایک خاتون گارڈ ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوا تھا (فوٹو: روئٹرز)
’اس کے لیے وقت کا کوئی تعین نہیں ہے مگر یہ کافی لمبا وقت ہو سکتا ہے۔‘ رحمان اللہ لکنوال 2021 میں اس وقت امریکہ میں داخل ہوا تھا جب سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے طالبان کے کنٹرول سنبھالنے پر ان لوگوں کی بڑی تعداد کو آنے کی اجازت دی تھی جنہوں نے دو دہائیوں تک امریکی فوج کی مدد کی تھی۔
روئٹرز نے رحمان اللہ لکنوال کی سرکاری فائل کا مشاہدہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو اپریل میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے سیاسی پناہ دی تھی۔
سیکریٹری کرسٹی نوم تبصرے سے عیاں ہوتا ہے کہ رحمان اللہ لکنوال افغانستان میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ یونٹ کا حصہ تھا اور ہو سکتا ہے کہ اس نے امریکہ پہنچنے کے بعد انتہاپسندانہ رویہ اپنایا ہو۔
’ہمارا یقین ہے کہ وہ ملک کے اندر رہتے ہوئے بنیاد پرستی کی طرف گیا اور ایسا ان کے اپنی کمیونٹی اور ریاست میں رابطوں کی وجہ سے ہوا۔ ہم ان لوگوں سے بات کرتے رہیں گے جنہوں نے ان سے بات کی اور ان میں خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’حکام کے ساتھ اب تک ان لوگوں کی جانب کچھ چیزیں شیئر کی گئی ہیں۔‘
رحمان اللہ لکنوال جو بائیڈن کے دور میں امریکہ پہنچا اور ٹرمپ کے دور میں سیاسی پناہ دی گئی تھی (فوٹو: روئٹرز)
انہوں نے خبردار بھی کیا کہ اس حملے کے ساتھ جڑے کسی بھی شخص کا تعاقب کیا جائے گا۔
’اس بارے میں جس کسی کے پاس بھی معلومات ہوں، اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اس کے پیچھے آ رہے ہیں اور انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
اس حملے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن کے کچھ معاملات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں جن میں پناہ کے لیے دی گئی درخواستوں پر کارروائی کو روکنا بھی شامل ہے۔
بدھ کے حملے کے بعد، ٹرمپ انتظامیہ نے کچھ قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے اقدامات کیے، جن میں پناہ کی تمام درخواستوں پر کارروائی کو روکنا بھی شامل ہے۔