روایتی سے ڈیجیٹل تفتیش تک: ’تلاش ایپ‘ نے 24 گھنٹوں میں قتل کا معمہ کیسے حل کیا؟
روایتی سے ڈیجیٹل تفتیش تک: ’تلاش ایپ‘ نے 24 گھنٹوں میں قتل کا معمہ کیسے حل کیا؟
جمعہ 19 دسمبر 2025 5:29
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ایسی ایپس کے استعمال میں شفافیت اور شہریوں کی پرائیویسی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے‘ (فائل فوٹو: پِکسابے)
کراچی کے ضلع کیماڑی میں گذشتہ ماہ ہونے والے ایک نوجوان کے قتل کا معمہ پولیس نے 24 گھنٹوں کے اندر حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ کامیابی روایتی تفتیش کے بجائے جدید تکنیکی ذرائع، خصوصاً تلاش ایپ کے استعمال کے ذریعے ممکن ہوئی۔
اس ایپ کو اب سندھ پولیس کی جانب سے جرائم کی روک تھام اور ملزموں کی تلاش کے لیے ایک اہم ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کیماڑی کے علاقے سعید آباد میں گذشتہ دنوں ایک نوجوان سبحان کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کا مقدمہ 19 نومبر کو تھانہ کلاکوٹ میں درج کیا گیا، جس میں ذاتی رنجش کو قتل کی وجہ قرار دیا گیا۔
پولیس کے مطابق مرکزی ملزم اللہ داد واردات کے بعد فرار ہو گیا تھا، تاہم کیماڑی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ جدید تکنیکی بنیادوں پر اِسے ٹریس کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی کیماڑی امجد احمد شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ملزم کی گرفتاری ایک منظم اور تکنیکی حکمتِ عملی کے تحت عمل میں آئی۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پولیس روایتی ذرائع جیسے مخبروں اور روایتی تفتیشی طریقۂ کار کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ٹُولز کو بروئے کار لائی، جس کے نتیجے میں ملزم کی لوکیشن اور نقل و حرکت کا سُراغ لگایا جا سکا۔‘
پولیس نے بتایا کہ ’گرفتاری کے وقت ملزم کے قبضے سے اسلحہ اور گولیاں بھی برآمد کی گئی ہیں، جن کا فورینزک تجزیہ کیا جا رہا ہے۔‘
یہ کیس محض ایک گرفتاری تک محدود نہیں بلکہ اسے پولیس کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اس کیس کی تفتیش میں تلاش ایپ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، جسے سندھ پولیس گذشتہ چند برسوں سے مرحلہ وار متعارف کروا رہی ہے۔
تلاش ایپ دراصل ایک ڈیجیٹل پولیسنگ ٹُول ہے، جو مختلف سرکاری اور پولیس ڈیٹا بیسز سے منسلک ہے۔ اس ایپ کے ذریعے پولیس اہل کار کسی بھی مشتبہ شخص کی شناخت، ماضی کے مقدمات، گرفتاریوں اور دیگر ریکارڈ تک فوری رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس ایپ کے ذریعے فیلڈ میں موجود اہل کاروں کو تھانے یا دفتر پر انحصار کیے بغیر معلومات حاصل ہو جاتی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ ایپ پولیس کے لیے بظاہر ایک موبائل ڈیٹا ٹرمینل کا کردار ادا کرتی ہے، جس سے فیلڈ میں موجود اہل کاروں کو تھانے یا دفتر پر انحصار کیے بغیر معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق اس کیس میں تلاش ایپ کے ذریعے ملزم کے کوائف، اُس کے پرانے ریکارڈ اور ممکنہ ٹھکانوں کی نشان دہی کی گئی۔
ان ہی معلومات کی بنیاد پر پولیس ٹیم نے محدود وقت میں کارروائی کی اور ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ ڈیجیٹل سہولت دستیاب نہ ہوتی تو ملزم کی گرفتاری میں کئی دن یا ہفتے بھی لگ سکتے تھے۔
جامعہ کراچی شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی جیسے بڑے شہر میں، جہاں جرائم کی نوعیت پیچیدہ اور پھیلاؤ وسیع ہے، ایسی ایپس پولیس کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہیں۔‘
’ماضی میں پولیس کو مطلوب ملزموں کی تلاش کے لیے طویل فیلڈ ورک، مخبروں اور روایتی ریکارڈز پر انحصار کرنا پڑتا تھا، جس میں وقت اور وسائل دونوں ضائع ہوتے تھے۔ اب ڈیجیٹل ڈیٹا کی مدد سے پولیس فوری فیصلے کرنے کے قابل ہو رہی ہے۔‘
تاہم انسانی حقوق کے ماہرین اور ڈیجیٹل رائٹس کے علم بردار اس حوالے سے بعض خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔
سندھ پولیس تلاش ایپ کو جرائم کی روک تھام اور ملزموں کی تلاش کے لیے ایک اہم ذریعہ قرار دے رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایڈووکیٹ ساجد لطیف کا کہنا ہے کہ ’ایسی ایپس کے استعمال میں شفافیت، ڈیٹا کے تحفظ اور شہریوں کی پرائیویسی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر ڈیٹا کے استعمال کے واضح اُصول اور نگرانی کا نظام موجود نہ ہو تو اس طرح کی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب پولیس حکام اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تلاش ایپ صرف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے استعمال کی جاتی ہے اور اس کا مقصد شہریوں کو ہراساں کرنا نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کی نشان دہی کرنا ہے۔‘
ایس ایس پی کیماڑی کے مطابق اس ایپ نے نہ صرف سنگین جرائم کے حل میں مدد دی ہے بلکہ روزمرہ پولیسنگ، سنیپ چیکنگ اور مفرور ملزموں کی گرفتاری میں بھی نمایاں نتائج دیے ہیں۔
کیماڑی پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم سے تفتیش کا عمل جاری ہے اور مقدمے میں نامزد دیگر مفرور ملزموں کو بھی جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پولیس کے مطابق اس کیس میں حاصل ہونے والی معلومات دیگر جرائم کی تفتیش میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
مجموعی طور پر کیماڑی میں نوجوان کے قتل کا یہ مقدمہ اس بدلتے ہوئے رُجحان کی عکاسی کرتا ہے، جہاں کراچی پولیس روایتی طریقۂ تفتیش سے نکل کر ڈیجیٹل پولیسنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔
تلاش ایپ جیسے ٹُولز بظاہر پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے رہے ہیں، تاہم اُن کے استعمال کے ساتھ شفافیت، جواب دہی اور شہری حقوق کے تحفظ جیسے سوالات بھی بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہی وہ پہلو ہیں جو آنے والے وقت میں اس ٹیکنالوجی کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کریں گے۔