Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورکنگ جنرنلسٹ کے اجلاس میں صحافتی اصول وضوابط کا جائزہ

 ریاض(ذکاء اللہ محسن)سعودی عرب میں پاکستانی صحافیوں کے کردار کے حوالے سے ورکنگ جرنلسٹ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں وقار نسیم وامق، عابد شمعون چاند،الیاس رحیم اور جہانزیب امجد  نے شرکت کی۔ اس موقع پر وقار نسیم وامق نے کہا کہ دور حاضر میں میڈیا نے جتنی ترقی کی ہے ،اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں  دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے  اور دنیا کے ایک حصے کی  خبر چند سیکنڈ کے اندر دوسرے کونے تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔اس سے جہاں دنیا کے اندر رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے،  وہیں پر اس تیز ترین میڈیا کی بدولت کچھ بگاڑ بھی پیدا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا پھر سٹیلائٹ نیوز چینل، ان کے  ذریعے چلنے والی  نیوز عام آدمی سے لیکر معاشرے اور پھر ملکوں کی اقتصادی اوردفاعی صورتحال کو بھی تباہ کر رہی ہیں۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں بریکنگ نیوز کی دوڑ میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ہر نیوز چینل اسی دوڑ میں ہے کہ اس کے ہاتھ تھوڑی سی بات آئے اور  وہ باقی کی من گھڑت کہانی کے ذریعے سنسنی پھیلا کر ریٹنگ کو اچھا بنا سکے۔ ہمارے ملک میں  نیوز چینل کو خود ہی ایک  ضابطہ اخلاق بنانے کی اہم ضرورت ہے تاکہ ان کی جانب سے معاشرے کے اندر سلجھاؤ کی صورتحال سامنے آ سکے۔ دوسری جانب پیمرا کی بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ  وہ تمام نیوز چینل کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ مونیٹر کرے کیونکہ میڈیا کی آزادی کا  ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سنسنی پھیلا کر معاشرے کی اخلاقیات کا  جنازہ نکال دیا جائے۔ جہانزیب امجد کا کہنا تھا کہ  ہمارے نیوز چینل عوامی کم اور  سیاسی  زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ بعض چینل حکومت کو  سپورٹ کرتے ہیں تو بعض اپوزیشن کا راگ الاپ رہے ہیں جس سے عوامی مسائل دب کر رہے گئے ہیں۔میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے پاکستانی سوچ کو اجاگر کرنے اور ملکی اساس کو اچھے انداز میں دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں موجودہ اور آئندہ نسلیں بہتر سوچ کو اپنا سکیں۔الیاس رحیم نے سعودی عرب میں کام کرنے والے والے تمام صحافیوں کے مثبت کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تمام لوگ سعودی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی کمیونٹی کی آواز کو دنیا میں پہنچا رہے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اور سعودی عرب سمیت تمام ممالک کو کشمیری عوام کی امنگوں، ان کے مطالبات کے ساتھ ساتھ ان پر ہونے والے ظلم کی  روداد بھی  احسن انداز میں نمایاں کر رہا ہے۔ کشمیر کا اصولی اور ٹھوس موقف  دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔عابد شمعون چاند نے کہا کہ  صحافت کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ دنیا کے  اندر جو ترقی کی لازوال داستان رقم کی جا رہی ہے، اس کی آگاہی ملتی ہے  اور ہمیں اپنے حقوق سے متعلق آگاہی ملتی ہے۔اس میں بہت بڑا اور اہم رول صحافت کا ہے۔ صحافت جہاں آج یورپ اور امریکہ میں ایک سائنس بنتی جا رہی ہے اور اس شعبہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جا رہی ہیں تاکہ صحافی صحیح معنوں میں حالات و  واقعات اور معاشیات اور معاشرے میں ابھرنے والی برائیوں کا تجزیہ کر سکیں اور ان کے ادرک کیلئے آواز اٹھا سکیں۔ غیر جانبدارانہ صحافت ایک اچھے صحافی کی حقیقی پہچان ہے۔ صحافی ہمیشہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہبی ، سیاسی ، یا لسانی گروپوں سے جدا رکھ کر اپنا کام کرتا ہے اور  وہ اپنے کام کا خود سب سے  بڑا نقاد ہوتا ہے۔ صحافت کا مقصد کسی بھی قسم کی معلومات تک رسائی معاشرے میں  رونما ہونے والے واقعات اور ان کا تجزیہ اور پھر ان کو اس طرح عام عوام یا حکومتوں کے  سامنے پیش کرنا ہے کہ  وہ ان معلومات کی بنیاد پر ملکوں  یا اپنی زندگیوں کے فیصلے کر سکیں۔  میرے نزدیک صحافت انتہائی مقدس ، عمدہ  اور پاکیزہ پیشہ ہے بشرطیکہ ہم اپنے قلم کی حرمت کی پاسداری کریں اور ہمیشہ حق اور سچ لکھیں۔  دیار غیر میں اپنی نوکریوں کے ساتھ ساتھ صحافت کے ذریعے اپنی کمیونٹی کے لئے بے لوث خدمت قابل تحسین ہے۔
 
 

شیئر: