مکہ مکرمہ(واس) مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر اسامہ خیاط نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، فرشتوں اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہنا مطلوب ہے۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ امام حرم نے کہا کہ دنیا بھر کے لوگ اپنی منزل پانے اور اپنا نصب العین حاصل کرنے کیلئے مختلف طور طریقے ، راستے اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان کا ہدف پورا کرانے کیلئے صراط مستقیم متعین کردی ہے۔ جو لوگ بھی یہ کہہ کر کہ ہمارا رب اللہ ہے، اسلامی طریقے کے مطابق زندگی گزاریں گے ، وہ اپنی منزل پالیں گے۔ فرشتے انہیں بشارت دیں گے کہ اب تمہیں نہ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ غمزدہ ہونے کی۔ تمہیں وہ جنت ملے گی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ علماء نے استقامت کی وضاحت صراط مستقیم پر چلنے سے کی ہے۔ استقامت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دل توحید باری کے حوالے سے مطمئن ہوجائے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پیش نظر رکھ کر اپنی زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے، اسی سے مانگے ۔ اسی پر بھروسہ کرے، اسی سے رجوع کرے ، اسی کی مرضی کے آگے جھکے۔ رب کے سوا ہر طاقت سے اعراض برتے ، تمام اعضاء و جوارح کے ساتھ رب کی مکمل اطاعت کرے۔ فرائض مقررہ وقت پر ادا کرے۔ ممنوع امور سے اجتناب برتے۔ نفلی امور کے ذریعے اللہ سے قربت پیدا کرے۔ امام حرم نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرم رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا " سیدھے ہوجاؤ، قربت حاصل کرو اور اچھی امید رکھو، یقین رکھو کہ جنت میں کسی کو اس کا عمل نہیں پہنچائے گا ، صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپؐ کو بھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو بھی۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت یا مغفرت سے مجھے نواز دے۔ امام حرم نے بتایا کہ استقامت میں اللہ کاذکر معاون بنتا ہے۔ سلف صالحین نے ہمیں بتایا ہے کہ کاموں میں توازن اور سنت سے وابستگی استقامت کی کلید ہے۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ علی الحذیفی نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ مسلمان رحمدل اور عمدہ کارکردگی کی شان رکھتے ہیں۔ خیر کام بے شمار ہیں ، عباداتیں اور فضائل والے کام رمضان المبارک تک محدود نہیں، یہ ہر ماہ بلکہ ہر دن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس کا شکر معمولی امر پر بھی کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چھوٹے سے کام پر بڑا اجر دیتا ہے۔ امام الحذیفی نے بتایا کہ قرضہ لینے والوں کو قرضہ ادا کرنا اور قرض طلب کرنے والوں کو قرضہ دینا دین اسلام کی پہچان ہے۔ جو لوگ مقروض افراد کو قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارہ دلاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ غیب سے ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص ڈوب رہا ہو اور آپ اسے ڈوبنے سے بچا لیں۔ مقروض کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے اس کے قرضے ادا کرکے اسے جیل سے رہا کرانا، بڑا کار خیر ہے۔ امام حذیفی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی تکلیف اور مصیبت معمولی نہیں ہوتی، بڑی ہوتی ہے مگر قیامت کے دن کی مصیبت اور تکلیف سے اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ قیامت کے دن آفات و مصائب سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ دنیا میںمصیبت زدگا ن کی مدد کرکے انہیں مصیبتوں سے چھٹکارہ دلائیں۔ غریبوں کی مدد کریں ، مریضوں کے علاج کا انتظام کریں۔