Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمشید دستی

سیاسی انتقامی کارروائیوں سےجمہوری لبادوں میں آمریت کی صورت عیاں ہو گئی
* * * *محمد مبشر انوار* * * *
پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود،اس کے کسان ، کھیت اورمزدور شدید استحصال کا شکار ہیں اور کوئی بھی حکومت کسانوں کیلئے صحیح معنوں میں پالیسیاں ترتیب دینے سے قاصر نظر آتی ہے گو کہ بھٹو نے انقلابی تبدیلیوں اور زرعی اصلاحات کا نعرہ تو دیا مگر بدقسمتی سے حقیقی معنوں میں وہ بھی زرعی اصلاحات نافذ کرنے میں ناکام رہے۔
ان کی تمام تر زرعی اصلاحات فقط کاغذوں میں جگمگاتی رہیں جبکہ کسان اور کھیت مزدور ان کے ثمرات سے ہمیشہ محروم رہے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود کسانوں اور کھیت مزدوروں کو جو تھوڑی بہت آسائش ملی وہ بھٹو یا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی ملی جبکہ دوسری ’’آمر یا تاجر‘‘ حکومتوں نے دل کھول کر کسانوں کو رلایا اور انہیں ان کی ’’اوقات ‘‘ میں رکھا کہ پاکستان کا جاگیردار طبقہ بھی تحریک پاکستان میں اس وقت شامل ہوا جب اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا یقین ہو گیا کہ اگر برطانوی راج ختم بھی ہو جائے تب بھی ان کے مفادات بعینہ ویسے ہی رہیں گے۔
دروغ بر گردن راوی یہاں تک بھی شنید ہے کہ ایسے جاگیر دار آج بھی موجود ہیں،جن کی زمینیں آج بھی تاج برطانیہ کے دستخطوں پر انہیں حاصل ہیں جس کے بدلے میں وہ ابھی تک تاج برطانیہ کے ہی وفادار ہیں۔دوسری طرف جنوبی پنجاب میں جتنا بھی ترقیاتی کام ہوا وہ برطانوی دور حکومت میں ہی ہوا جبکہ اس کا عشر عشیر بھی ما بعد پاکستانی حکومتوں نے نہیں کیابلکہ پورے ملک کی طرح یہاں بھی ترقی معکوس ہی سامنے آئی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور ہونے والی زراعت کو ہر ممکن سہولت دی جاتی اور اس کو مضبوط کیا جاتا ،اس کے لئے نت نئے منصوبے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے ہر ممکن اقدامات کئے جاتے لیکن حقیقتاً ہوا اس کے برعکس کہ زراعت کی ترقی سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسے گھر کی کھیتی سمجھا گیا اور تمام تر بوجھ کسان پر لاد کر اس سے بہترین کی توقع کی جاتی رہی،پانی،بجلی،بار دانہ، کھاد، مواصلات اور فصل کی جائز مناسب قیمت کی بجائے اسے ہر سطح اور ہر موقع پر استحصال کا نشانہ بنایا گیا صرف ایک وجہ سے کہ کسان کی آمدن انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کیوں ہے لہذا اسے نہ صرف پانی کی بروقت و مکمل فراہمی میں کوتاہیاں برتی گئی،باردانے کی شکل میں غیر معیاری باردانہ فراہم کیا گیا،کھاد کے نام پر اسے جعلی ادویات فراہم کی گئی،بجلی باقی ملک کی نسبت کہیں زیادہ کم فراہم کی گئی،نئی اقسام کی ورائٹی کو شجر ممنوعہ بنایا گیا اور اس سے بھی سوا ہماری حکومتوں کی نا اہلی کہ سونا اگلتی زمینوں پر سولر پاور پلانٹ اور کول پاور پلانٹ جیسے زراعت کش منصوبے روبہ عمل لائے گئے۔
حکومتی پالیسیوں کے باعث کپاس کے کاشتکار بری طرح متاثر ہوئے اور امسال اس کی فصل میں ریکارڈ کمی ہوئی۔ دوسری طرف جنوبی پنجاب کے بڑے بڑے جاگیرداروںاورکاشتکاروںکی مجرمانہ خاموشیاں کہ پارلیمنٹ میں ہونے کے باوجود ان کی زبانیں گنگ ،عام کسان پر ہونے والی ناانصافیاں ان کے علم میں مگر آفرین ہے کہ وہ معاشی ریڑھ کی ہڈی کیخلاف ہونے والی کسی پالیسی پر اپنی رائے دینے کی جرأت کر سکیں،اپنے علاقوں میں مزارعوں کیلئے فرعون اور نعوذ باللہ خدا کا درجہ رکھنے والے یہ نمرود و شداد ، تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں مگر مجال ہے کہ اپنے علاقوں کی ترقی کے لئے زبان ہلا سکیں ۔جنوبی پنجاب کے بڑے بڑے نام اقتدار کی مسندوں پر فائزرہے مگر مجال ہے کہ اپنی جاگیروں میں اضافے یا ٹور ٹپے اور شپ شپا کے علاوہ ان کی کوئی خدمت اپنے علاقے کے لئے ہو لیکن ان تمام تر خرافات کے بعد اس دھرتی نے ایک ایسا سپوت پیدا کیا ہے جو ببانگ دہل تختِ لاہور کو للکار رہا ہے۔
جمشید دستی ،ایک منتخب رکن اسمبلی ہیں جس نے ابتداء میں وہی کیا جو اس دھرتی کا خاصّہ ہے کہ 2 حلقوں سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوا اور وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر ’’راجہ اندر‘‘کی سی اہمیت پا کر اپنا ووٹ وزیراعظم کی نذر کیا مگر جیسے جیسے اپنی قدرو منزلت میں کمی دیکھی یا حقیقتاً اپنے حلقے اور جنوبی پنجاب کے ساتھ سوتیلا سلوک دیکھا ،بتدریج حکمرانوں پر اس کی تنقیدی آواز بلند ہوتی گئی، بالخصوص 29مئی کو اپنی تقریر میں براہ راست تخت لاہور پر براجمان ’’خادم اعلیٰ‘‘ کی پالیسیوں اور پنجاب پولیس کی کارکردگی کو عیاں کر دیا، مخالفین کی حیات زار اور گلوں بٹوں کی کارستانیاں عوام کے سامنے رکھ دیں، طاہر القادری اور ان کے کارکنان پر ہونے والے ظلم و تشدد پر ہونے والی ناانصافی ،جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے مطالبے نے تو حکومت کو چراغ پا کرنا ہی تھا۔
اس سے قبل بھی جمشید دستی ایسی ہی ایک جرأت رندانہ پارلیمنٹ لاجز میں کر چکا تھا جہاں اس نے عوامی نمائندگان کی اصلیت عوام کے سامنے طشت ازبام کی تھی،لاجز کے کاریڈورز میں بکھری رنگ برنگی غیر ملکی ’’مشروب ‘‘ کی خالی بوتلوں کو میڈیا کے توسط سے عوام کے سامنے لانا،لاجز میں رات کی تاریکی میں ہونے والی شرمناک گھناؤنی حرکتوں سے عوام الناس کو روشناس کرانے کی کوشش،جو تقریباً ساری پاکستانی عوام کو معلوم ہے مگر عوام بیچاری سے مختلف حیلوں بہانوں اور شخصیت پرستی کے زور پر ووٹ حاصل کر لئے جاتے ہیں،ایسے میں جمشید دستی کی یہ ساری کاوشیں ،ممکن ہے فی الوقت کوئی خاص اہمیت نہ رکھیںلیکن کون جانے آنیوالے کل میں اس کا کیا نتیجہ نکلے۔
اس سارے پس منظر میں یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جنوبی پنجاب کی عوامی نمائندگی کے حوالے سے جمشید دستی اپنے تمام ہم عصر سیاستدانوں سے کہیں آگے نکل چکا ہے کہ اس نے ایک طرف نہ صرف اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کروائے ہیں بلکہ اپنے طور پر ہر اس موضوع پر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے جو جنوبی پنجاب کے عوام کی بہتری کیلئے ہے۔ 29مئی کی تقریر کے بعد جمشید دستی کیخلاف ہونے والی کارروائیوں سے انتقام کی بو آتی ہے کہ گزشتہ حکومت ایسی سیاسی انتقامی کارروائیوں سے مبرا رہی ہے اور امید یہی تھی کہ پاکستانی سیاست اور سیاستدان اتنے بالغ ہو چکے ہیں کہ اب سیاسی انتقامی کارروائیوں کے دن گزر گئے اور اب پاکستا ن میں جمہوریت اپنے قدم جما لے گی مگر یہ خام خیالی بھی ہوا ہوئی اور جمہوری لبادوں میں آمریت کی صورت عیاں ہو گئی۔
سیاسی بلوغت کے حوالے سے فقط دو بڑی پارٹیوں کی ’’مک مکا‘‘سیاست میں ہی بلوغت نظرآتی ہے جہاں وہ ایک دوسرے کی فائلیں دبائے ،ڈراوے دیتے ہوئے ایک حد سے باہر نکلنے سے روکتے نظر آتے ہیں،رہی حقیقی جمہوری سیاست تو فی الوقت اس کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا۔ ایسے خوبصورت مواقع سیاستدانوں کو بہت کم ملتے ہیں جب سیاسی افق پر خلا موجود ہواور کسی بھی سیاستدان کیلئے اس خلاکو پر کرنا آسان اس طرح ہو کہ حکومت وہ تمام لوازمات اسے فراہم کر دے جو فی زمانہ سکہ بند سیاست دان کیلئے ضروری ہیں۔ جمشید دستی کیلئے حکومت نے خودہی وہ لوازمات پورے کر دئیے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا جمشید دستی ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں کہ انہوں نے اپنی ایک سیاسی جماعت بھی بنا رکھی ہے،جو کچھ زیادہ نہیں تو جنوبی پنجاب میں اثر رکھتی ہو گی۔

شیئر: