Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کچرا اٹھانا منع ہے۔

حکومتِ سندھ نے فیصلہ کیا کہ غیروں اور نہ اپنوں کسی پر اعتماد نہیں کرنا۔اپنا کچرا خود اٹھانا ہے
* * * * * تحریر۔وسعت اللہ خان * * * * *
تین برس پہلے حکومتِ سندھ نے وہ بوجھ بھی خود اٹھانے کا فیصلہ کیا جسے اٹھانے کے لئے باقی دنیا میں بلدیاتی ڈھانچہ تخلیق کیا جاتا ہے۔یعنی شہروں اور قصبوں سے کچرا اٹھانے کی زحمت کسی بلدیہ کو نہیں دی جائے بلکہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ یہ کام کرے۔ اس کچرا بورڈ کے سربراہ وزیرِ اعلی ہیں۔دیگر معزز ارکان میں اکثریت بیوروکریٹس کی ہے۔صوبے کی تمام بلدیات کی نمائندگی صرف ایک مئیر ( مئیر کراچی ) کرتا ہے۔
سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ایکٹ میں صاف صاف چیتاونی دی گئی ہے کہ سندھ کی حدود میں پیدا ہونے والا تمام صنعتی ، ماحولیاتی ، اسپتالی اور گھریلو کچرا حکومتِ سندھ کی ملکیت ہے۔اگر کسی بلدیہ نے ہاتھ تک لگایا تو اچھا نہ ہوگا۔بلدیات اسے بہ حسرت دیکھ سکتی ہیں چھو نہیں سکتیں۔۔۔ اس وقت سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں روزانہ بارہ ہزار ٹن صنعتی و گھریلو فضلہ پیدا ہوتا ہے۔اس میں سے نوے فیصد ری سائیکل ہو سکتا ہے۔شہر کا کچرا ٹھکانے کے لئے پانچ پانچ سو ایکڑ کے دو قطعاتِ اراضی شہر سے باہر مختص کئے گئے ہیں۔وہاں روزانہ دو ہزار ٹن کچرا اگلے پانچ برس تک جمع کرنے کی گنجائش ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی مشینری خدانخواستہ تندہی سے کام کرے تو بھی روزانہ چالیس فیصد سے زائد کچرا نہیں اٹھا سکتی۔باقی ساٹھ فیصد زمین اور فضا کا حصہ بن جاتا ہے یا پھر افغان بچے اس میں سے اپنی اپنی ضرورت کا شیشہ ، دھاتیں ، پلاسٹک ، ربڑ کی اشیا ، کاغذ وغیرہ چن کے بیچتے ہیں اور شام کی روٹی کا انتظام کرلیتے ہیں۔ اس پر مزید قیامت صنعتی کارخانوں اور انسانی و حیوانی فضلے سے بھرپور ساڑھے تین سو ملین گیلن پانی جا رہا ہے جو خام شکل میں بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں جا رہا ہے اور کراچی کے اردگرد کے سمندر کو ایک جوہڑ میں تبدیل کررہا ہے۔
سینٹری پائپوں کی کہنہ سالی کے سبب بہت سا گندہ پانی پینے کے صاف پانی کی لائنوں میں رس رہا ہے لہذا پیٹ کے امراض اہلیانِ کراچی کی زندگی کا لازمی بونس ہیں۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں لگ بھگ چار ہزار ٹن کچرا اور شہید بے نظیر آباد اور لاڑکانہ میں پانچ سو سے ہزار ٹن روزانہ صنعتی ، زرعی و گھریلو کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے۔سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے پہلے مرحلے میں کراچی ، لاڑکانہ اور بے نظیر آباد کے کچرے کو صوبائی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا۔دوسرے مرحلے میں حیدرآباد سمیت دیگر قصبات کا کچرا اپنایا جائے گا۔ پرویز مشرف کے سن دو ہزار ایک کے بلدیاتی نظام میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری تھی۔دو ہزار آٹھ میں حکومتِ سندھ نے ایک چینی کمپنی ’’ شنگھائی شین گونگ ’’ کو کراچی کے اٹھارہ ٹاؤنز سے صنعتی و گھریلو کچرا جمع کرنے اور ٹھکانے لگانے کا ٹھیکہ دیا۔چینی کمپنی نے اس بابت دو سو تیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا۔معاہدے کے مطابق چینی کمپنی کو بیس ڈالر فی ٹن کچرا صفائی فیس دیا جانا طے پایا۔
جو بھی کچرا ری سائکل ہوتا اس میں سے پندرہ فیصد منافع صوبائی حکومت کو ملنا تھا۔مگر جب کمپنی نے تمام سینٹری ورکرز ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ڈھانچہ اور دستیاب مشینری مانگی تو صوبائی حکومت نے کہا کہ ہم کچھ بھی نہیں دیں گے۔تم ورکرز ، مشینری ، سرمایہ سب خود لاؤ۔ہم تو بس بیس ڈالر فی ٹن ہی ادا کرنے کے پابند ہیں۔قصہ مختصر یہ چینی کمپنی معاہدے کے چھ ماہ بعد ہی پتلی گلی سے نکل لی اور کچرامنہ دیکھتا رھ گیا۔ شائد اسی پس منظر میں حکومتِ سندھ نے فیصلہ کیا کہ غیروں اور نہ اپنوں کسی پر اعتماد نہیں کرنا۔اپنا کچرا خود اٹھانا ہے۔اس کام کو یقینی بنانے کے لئے سب سے پہلے تو منتخب بلدیاتی اداروں کو رسیوں سے باندھا گیا۔ان کے بجٹ کی ایک ایک پائی صوبائی خزانے سے آ رہی ہے۔
یعنی انہیں ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں۔صحت و صفائی کی شہری سہولتوں کا ماہانہ ٹیکس بھی صوبائی خزانے میں جاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی مانیٹرنگ صوبائی لوکل گورنمنٹ کمیشن کرتا ہے کہ کہیں بلدیاتی ادارے ’’ صوبائی معاملات ’’ میں کتر بیونت تو نہیں کر رہے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو قائم ہوئے تین برس ہونے کو آئے۔اس دوران اس کے چار اجلاس ہوئے۔صوبائی حکومت کے فلسفے کے مطابق بلدیاتی نظام اس کام کے لئے قطعاً موزوں نہیں۔ ویسے بھی اٹھارویں آئینی ترمیم میں کہیں یہ نہیں لکھا گیا کہ جو اختیارات مرکز صوبوں کو منتقل کرے ان میں سے کچھ اختیارات صوبہ بلدیات کو منتقل کرنے کا بھی پابند ہوگا۔یوں بھی اس وقت صوبے کے داخلی معاملات کو فوجی و سویلین ایپکس کمیٹی دیکھ رہی ہے۔کرپشن اور گڈ گورننس کے مسائل رینجرز ، نیب اور ایف آئی نے اپنے سر منڈھ لئے ہیں۔ڈویلپمنٹ فنڈز کا حساب کتاب وزیرِ اعلی کے دفتر کے پیچھے والے کمرے میں تندہی سے دیکھا جاتا ہے۔اب اگر کچرا اٹھانے کے اختیارات بھی بلدیاتی ادارے لے اڑے تو صوبائی حکومت کے پاس ’’ ٹیم پاسی ’’ کے لئے کیا بچے گا۔ تو اب مجھ جیسے شہری کیا کریں ؟ کراچی کے پیرس یا استنبول ہونے کا انتظار کریں یا پھر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے سربراہ وزیرِ اعلی کو فون کریں کہ حضور ہمارے محلے میں پچھلے آٹھ برس سے کچرے جمع ہوتے ہوتے اب ایک سالڈ پہاڑی بن چکا ہے براہِ کرم اس کی کوہ پیمائی کیجئے یا ہٹانے کے لئے چار سینٹری ورکرز بھیج دیجئے۔ بلدیاتی کونسلر تو ہماری سنتا نہیں۔اور سن بھی لے تو کیا اکھاڑ لے گا ؟ بچہ سقہ نے تو صرف چمڑے کے سکے چلوائے اور بدنام ہوگیا۔اگر یہی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اس کے دور میں قائم ہوتا تو جانے اس غریب کے اور کتنے لطیفے بنتے۔مگر جمہوریت میں لطیفے نہیں بنتے۔خود جمہوریت کو ہی لطیفہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔

شیئر: