Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلی دنیا:کمپیوٹریات، ادویات، ایٹمیات، تباہیات، خلائیات

 
 ہمارے ہاںانسانیات، خاندانیات، سماجیات ،ازدواجیات اور لسانیات کے ماہرین جنم لیتے ہیں
شہزاد اعظم۔جدہ
پہلی دنیا کے لوگوں نے اپنے حساب سے اور اپنی روایات کے مطابق ترقی کی منازل طے کیں۔تیسری دنیا کی اپنی روایات ہیں۔اس کے باسیوں نے اپنی ان روایات کے مطابق ہی ترقی کرنی تھی اور کی۔پہلی دنیا کمپیوٹریات، ادویات، ایٹمیات، تباہیات، خلائیات،حیوانیات اور زمینیات کے ماہرین پیدا کر رہی ہے۔ہم لوگ ٹھہرے امن ، محبت، پیار، مودت، خلوص، طمانیت، شرافت اور اخلاق کے امین، اس لئے ہمارے ہاںانسانیات، خاندانیات، سماجیات ،ازدواجیات اور لسانیات کے ماہرین جنم لیتے ہیں۔ہمارے ہاں کی جامعات میں آج بھی بعض ایسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں جو پہلی دنیا کی ”چکاچوند“جامعات میں کافی عرصے قبل سے متروک شمار کئے جا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہماری ملاقات سماجیات کے نام نہاد ماہر سے ہوئی ۔انہوں نے حیات ِانسانی کے 3ادوار یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں پائے جانے والے تفاوت کے بارے میں بعض حیران کن انکشافات کئے۔ان میں سے بعض توایسے تھے جو ہم جیسے ہر شخص کے ذہن میں پہلے سے موجودتھے مگر کچھ انکشافات ایسے تھے جو ہماری سوچ کے دھارے کو مضطرب کرگئے۔
ان صاحب نے زندگی کے تین ادوار کے بارے میں جو آگہی فراہم کی اس پر خواتین کے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔اس کا سبب بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان ”بے تکے“ انکشافات سے خواتین کی عمر کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ لیں گی۔ خواتین اپنی عمر کو صیغہ راز میں رکھنے کی عادی ہے۔انہوں نے اس ضمن میں اس ”اٹل پن“ کا ثبوت دیا ہے کہ مرد حضرات اب کسی خاتون سے اس کی حقیقی عمر دریافت کرنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتے۔وہ اپنے چہرے مہرے کی ”سلوٹوں“ کو بناو سنگھار کی اشیاءکی دبیز تہ تلے چھپا نے کی ماہر ہو چکی ہیں۔ایسے میں سنگھار شدہ ماں اور بے سنگھار بیٹی میں فرق کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
ان حقائق کی موجودگی میں ”ماہر سماجیات“نے جو ”نام نہاد“ انکشافات کئے ہیں ان کی روشنی میں کسی بھی خاتون کی حرکات و عادات دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ لگانا آسان ہو جائے گا اور خواتین خواہ اپنی عمر چھپانے کی کتنی بھی کوششیں کر لیں،ان کی عمر کے بارے میں دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے گا۔
نسوانی ”اعتراضات“ اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں اس کے باوجودموصوف نے جو انکشافات کئے ان کا خلاصہ قارئین کی معلومات میں تہلکہ مچانے کے لئے پیش کیا جا رہا ہے:۔
٭بچپن میں انسان کو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، جوانی میںاسے بہت کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے اور بڑھاپے میںبہت سی باتیں اس کی سمجھ سے باہر ہوجاتی ہیں۔ 
٭بچپن میں انسان روتا ہے تو دنیا اسے چپ کراتی ہے۔جوانی میں دنیا اسے ہنساتی ہے مگر صرف ایک ہستی اسے رلاتی ہے۔بڑھاپے میںساری دنیا اسے رلاتی ہے، چپ کرانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ 
٭بچپن میں انسان بہت کچھ کر سکتا ہے مگر کچھ نہیں کرتا۔جوانی میں بہت کچھ کرتا ہے اور کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو وہ نہیں کرسکتا۔بڑھاپے میں وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کچھ نہیں کر سکتا۔
٭بچپن میں سب بولتے ہیں، انسان غور سے سنتا ہے۔جوانی میں وہ بولتا ہے اور سب سنتے ہیں۔بڑھاپے میں انسان بولتا ہے مگر کوئی نہیں سنتا۔
٭بچپن میں بچہ ،ماں کے لئے سب کچھ ہوتا ہے۔جوانی میں اس کے لئے ”کالے سروالی“سب کچھ ہوتی ہے اور بڑھاپے میں وہ کسی کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
٭بچپن میں بچہ گھر سے نکل جائے تو سب پریشان ہو جاتے ہیں۔جوانی میں انسان گھر سے باہر رہے تو بیوی پریشان ہوتی ہے اور بڑھاپے میں انسان گھر میںرہے تو گھر والے ذہنی تناو کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔
٭بچپن میں انسان کو بڑی عمر کے لوگ پسند آتے ہیں کیونکہ وہ عقلمند ہوتے ہیں اور اس کی باتوں کو اشاروں کنایوں میں ہی سمجھ لیتے ہیں۔جوانی میں اسے ہم عمر اچھے لگتے ہیں کیونکہ انکی سمجھ بوجھ اس کے ذہنی معیار کے ہم پلہ ہوتی ہے جبکہ بڑھاپے میں اسے کم عمر لوگ اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ قدرے ”بیوقوف“ ہوتے ہیں۔
٭بچپن میں کھانے پینے کا انتظام ماں کرتی ہے۔جوانی میں یہ ذمہ داری بیوی سنبھال لیتی ہے اور بڑھاپے میں انسان کے کھانے پینے کا انتظام ہوٹل والے کرتے ہیں۔
٭بچپن میں انسان سے کوئی نفرت نہیں کرتا۔جوانی میں صرف ایک آدھ شخصیت ہی ایسی ہوتی ہے جو اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی جبکہ بڑھاپے میں کوئی بھی فرد اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔
٭بچپن میں انسان آئینہ دیکھ کر کھیلتا ہے۔جوانی میں آئینہ دیکھ کر پھیلتا ہے اور بڑھاپے میں آئینہ دیکھ کر نجانے کیا کچھ جھیلتا ہے۔
٭بچپن میں انسان سوچتا کچھ نہیں مگر بہت کچھ کرتا ہے، جوانی میں سوچ کر کچھ نہ کچھ کر ہی لیتا ہے اور بڑھاپے میںبہت کچھ سوچتا ہے مگر کرتا کچھ نہیں۔
٭بچپن میں بچہ بول بول کر دوسروں کے کان پکا دیتا ہے۔جوانی میں وہ سرگوشیوں کے ذریعے دوسروں کو بہرہ ہونے کا احساس دلاتا ہے اور بڑھاپے میں دنیا کی باتیں سن سن کر اس کے کان پک جاتے ہیں۔
٭بچپن میں غصہ آئے تو انسان روتا اور چلاتا ہے، جوانی میں غصہ آئے تو وہ اپنے طاقت کے زعم میں دوسروں کو مار پیٹ کر خوش ہوتا ہے اور بڑھاپے میں غصہ آئے تو وہ اپنا سر خود پیٹتا ہے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: