Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل کی پہلی دھڑکن سے ساتھ نبھانے والی سہیلی ، ماں

 
 خوش نصیب ہیںوہ جن کی ماں زندہ ہے، جنت کا دروازہ ان کے گھر میں کھلا ہے
شہزاداعظم۔جدہ
ہر انسان کی زندگی میں کئی عورتیں آتی ہیں جن میں بیوی، بیٹی، بہن اور ماں شامل ہیں۔ ان میں تمام رشتے منفرد نوعیت کے ہوتے ہیں مگر جہاں تک ماں کا تعلق ہے، اس رشتے کے نعم البدل کا تصور بھی ناممکن ہے۔یہ وہ عورت ہے جس کی کوکھ میںجنین سے لے کر جنے جانے تک انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔یہ وہ سہیلی ہے جو انسان کے دل کی پہلی دھڑکن سے ساتھ نبھانا شروع کرتی ہے اور اپنی آخری سانس تک محبت، م¶دت، پیار، چاہت، وفا،ترحم، ہمدردی، ایثار اور قربانی کے انمول موتی نچھاور کرتی رہتی ہے۔اولاد کو دنیا میں نجانے کن کن چیزوں سے پیارہوتا ہے مگر ماں کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز کو ئی شے نہیں ہوتی۔ایک عورت کیسے کیسے مراحل سے گزر کر ماں بنتی ہے، اس کے بارے میں ذرا غور فرمائیے:
جسم انسانی میں پائے جانے والے ہارمونز ایسے کیمیائی مرکبات ہیںجو ہماری زندگی کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمارے جسم کے تمام ہی افعال ان ہارمونز کے مرہون منت ہیں۔مرد کی مردانگی، عورت کی نسوانیت،خوراک کا انہضام، جلد کے مسامات سے پسینے کا اخراج، غصہ، شرم، حیا،دل کی دھڑکن، جذبات کی برانگیختگی، سوچ کے زاویے، بہادری، بزدلی، بالوں کا گھنا پن اور گنج پن سب کچھ ہی ان ہارمونز کے باعث ہے۔یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ ہارمون مخصوص غدود یا غدودوں سے خارج ہو کر خون میں شامل ہوتے ہی اپنے افعال شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے بعض افعال اتنے برق رفتار ہوتے ہیں کہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میںاثرات مرتب کر دیتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ان ہارمونز میں ”پازیٹیو اور نگیٹیو فیڈ بیکس“ بھی ہوتی ہیں یعنی خون میں جب کسی ایک ہارمون کی سطح خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو دوسرا ہارمون خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اس کے باعث پہلے ہارمون کی سطح میں کمی واقع ہوتی ہے اور انجام کار تیسرے ہارمون کا اخراج شروع ہو جاتا ہے جو دوسرے ہارمون کو کم اور پہلے ہارمون کے اخراج کو زیادہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں چوتھے ہارمون کے اخراج کو تحریک ملتی ہے اور یہ سلسلہ یونہی جاری و ساری رہتا ہے۔
جب رحم مادر میںقرار پانے والے حمل کے باعث ایک روح جنین کی شکل میں تخلیقی مدارج طے کرنا شروع کرتی ہے تو ماں کے جسم میں ہارمونزخاص قسم کے افعال انجام دینے کے لئے سرگرم ہوجاتے ہیں جو عام حالات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔اس حالت میں کبھی عورت کو انتہائی شدید غصہ آتا ہے اور کبھی اچانک پشیمانی اور ندامت کا احساس دامن گیر ہو جاتا ہے، کبھی اسے بھوک لگتی ہے اور کبھی جی متلانے لگتا ہے۔ گاہے اسے گھر اور اس کے مکینوں سے وحشت ہونے لگتی ہے اور کبھی گھر کو سجانے، بنانے اور اس کے مکینوں کی دلجوئی کرنے کا شوق جاگ اٹھتا ہے۔ کبھی اسے گہری نیند آنے لگتی ہے اور کبھی وہ ساری ساری رات جاگ کر گزارتی ہے۔ اس تمام غیر معمولی اور انوکھی صورتحال کے باعث وہ 24گھنٹے میں نجانے کتنی مرتبہ جذباتی لحاظ سے سرد و گرم اور سخت و نرم کیفیات سے گزرتی ہے پھر بھی اپنے آپ پر قابو پا کراپنے گھر، ساس سسر، نند ، دیورانی اور جٹھانی جیسے ”خوفناک“ رشتوں کو سنبھالے رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر شوہر کی خدمت اور دلجوئی کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے جو اس کے لئے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتامگر گھر میں نئے مہمان کی آمد کا تصور اسے مسحور کئے رکھتا ہے جس کے سامنے یہ تمام مشکلات اور ذہنی کیفیات اسے لایعنی لگتی ہیں۔ہر صبح اس کے لئے ایک نوید لے کر طلوع ہوتی ہے کہ ننھے مہمان کی آمد کے انتظار کا ایک اور دن کم ہو گیا۔یوں وہ ایک ایک لمحہ گن گن کر 9ماہ گزارتی ہے اور انجام کار اس کی گود آباد ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے صبر و برداشت کا پھل سمجھتی ہے۔
یقین جانئے ، ایک ماں، بچے کی پیدائش سے قبل 9ماہ تک جس ذہنی و جذباتی نشیب و فراز سے گزرتی ہے، اگر مرد کو ایک دن کے لئے بھی ان کیفیات سے دوچار ہونا پڑ جائے تو وہ گرہستی کا تمام نظام تہ و بالا کردے،سسرالیوں کو ٹھکانے لگا دے، شریک سفر کو حوالہ¿ پولیس کر دے اور گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دے۔یہ تو صرف عورت کا ہی دم ہے جو انجانی مسرت سے معمور ہو کراولاد کے لئے ہر قسم کی تکلیف اور مشکلات برداشت کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آتی ہے۔ پھر بھلا ماں کا رتبہ بلند کیوں نہ ہو؟
بچے کی پیدائش کے بعد بھی عورت کا امتحان ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد ماں کا ایک اور امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے بچے کو دودھ پلا کر اپنے خون جگر سے سینچتی ہے اوراپنی محبتیں، وفا، ایثار، چاہت، انسیت، اپنائیت اور پیار سبھی کچھ ممتا کی شکل میں لخت جگر پر نچھاور کر دیتی ہے۔بچے کی خاطر دن کا چین اور راتوں کی نیند برباد کر دیتی ہے۔ خود سردی میں رہتی ہے بچے کو رضائی اوڑھا دیتی ہے۔ خود گیلے بستر پر لیٹ جاتی ہے اور خشک جگہ پر بچے کو لٹاتی ہے۔ وہ خود بھوکی رہ لیتی ہے مگر بچے کو پیٹ بھر کر کھلاتی ہے۔وہ اپنی ذات کو بھلا دیتی ہے اور صرف بچے کی ہو کر رہ جاتی ہے۔اس سے باتیں کرتی ہے اور اسے بولنا سکھاتی ہے ، اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے، اس کے ساتھ کھیلتی ہے اور اسے کھلاتی ہے۔زندگی میں اسے کوئی محبت دے نہ دے، پیار کرے نہ کرے مگر اپنے بچے کو وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر چاہتی ہے۔ اگر شوہر اس کے ساتھ برا سلوک کرتا ہو، مارتا پیٹتا ہو، بے عزتی کرتا ہو، اس کے باوجود وہ اس سے علیحدہ ہونے کی بجائے اس کے تمام مظالم کو ہمت، عزم اور حوصلے سے برداشت کر لیتی ہے کیونکہ وہ اس کے بچوں کا باپ ہوتا ہے۔ اسے خبر ہوتی ہے کہ دنیا کا کوئی دوسرا شخص اس کے بچوں کو ایسا پیار نہیں دے سکے گا جو اس کا شوہربچوں کا باپ ہونے کے باعث انہیں دیتا ہے۔یوں صرف بچوں کی خاطر وہ اپنے ازدواجی زندگی میں گھلے ہوئے زہر کی تلخی کو بھلا کر ساری زندگی گزار دیتی ہے۔ اس وقت یہی سوچتی ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہوگا تو مجھے محبت دے گا، میری خدمت کرے گا اور میرا مشکور ہوگا کہ میں نے اسے اپنی جوانی گلا کر پالا پوسا اور جوان کیا۔ اس کی محبت پا کر مجھے ایسا احساس ہو گا جیسے میری محنت وصول ہوگئی۔ جس طرح میں اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی سمجھا، اسی طرح وہ بھی مجھے دنیا میں سب سے بڑھ کر چاہے گا اور کیوں نہیں چاہے گا، میرا خون ہے مگر پھر ہوتا یوں ہے کہ:
بیٹاشادی کر لیتا ہے۔ دلہن گھرآ جاتی ہے۔ اس کے ناز ،انداز، حسن و خوبصورتی سے دولہا میاں مسحور ہو جاتے ہیں۔ ماں کا جھریوں زدہ چہرہ بیٹے کی آنکھوں میں گویا چبھنے لگتا ہے۔ دلہن ، اپنی ساس کو ”خطرناک ہستی“ سمجھ کراس سے دوریاں پیدا برقرار رکھنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہو جاتی ہے۔ساس کے خلاف شوہر کے کان بھرنا شروع کر دیتی ہے اور اسے اپنی ماں سے ”محتاط“ رہنے کا مشورہ دیتی ہے۔ بیٹا چونکہ نئی نویلی دلہن کی زلفوں کا اسیر ہوتا ہے، اسے اس کی تمام باتیں مبنی بر حقیقت محسوس ہوتی ہیں اور وہ ماں سے علیحدہ ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بہو، اپنے شوہر کو لے کر علیحدہ ہو جاتی ہے اور یہ ضعیف ماں جسے خدمت اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مرتبہ پھر تنہاءرہ جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتی بلکہ اللہ رب العزت کے حضور یہی دعائیں کرتی رہتی ہے کہ اے مالک! میرے لخت جگر کو گرم ہوا نہ لگے، اسے دین و دنیا کی تمام نعمتوں اور عنایات سے نوازئیے۔یوں وقت گزرتا رہتا ہے، وہ ماں بالآخر دنیا سے چلی جاتی ہے اورایسی ہی ایک ماں کا کرداراب اس ”دلہن“ کو بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ماں کے انتقال کے بعدہی اولاد کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے ماں کی خدمت کا حق ادا نہیں کیا۔اس کو وہ مقام نہیں دیا جس کی وہ حقدار تھی۔ اس سے دعائیں نہیں لیں مگر اس وقت پچھتانے سے کیا فائدہ جب چڑیاں سارا کھیت ہی چگ چکی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ماں کی ہستی ایک سائبان کی طرح سر پر سایہ فگن رہتی ہے اور زمانے کی دھوپ سے محفوظ رکھتی ہے۔اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب یہ سا ئبان یا چھت سر سے چھن جاتی ہے۔پھر انسان خود کو زندگی کے لق و دق صحرا میں تنہا محسوس کرتا ہے۔ جہاں وہ صدائیں دیتا ہے مگر سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ہمدردی کے لئے پکارتا ہے مگر کسی کے پاس دو میٹھے بول بولنے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔پھر اسے ماں یاد آتی ہے جوسردیوں کی راتوں کو اٹھ اٹھ کر دیکھتی تھی کہ میرا بچہ کہیں سردی سے سکڑ تو نہیں رہا۔اسے ماں یاد آتی ہے جو بچے کی تیوری پر بل دیکھ کر پریشان ہو جاتی تھی اور اس کی پریشانی کا مداوا کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جاتی تھی۔پھر اسے ماں کی گود یاد آتی ہے جو اسے دنیا کے تمام تفکرات سے بے بہرہ کر دیتی تھی۔پھر اسے وہ ماں یاد آتی ہے جس کی نظریں گھر سے نکلتے وقت پیچھا کرتی تھیں اور زبان دعائیں دیتی تھی کہ اللہ کریم تجھے ہر امتحان میں کامیاب کرے۔پھر وہ قدم یاد آتے ہیں جن کے نیچے اس کی جنت تھی۔ اولاد کے لئے ماں کے دل سے ہر وقت دعا نکلتی رہتی ہے۔ اگر اولاد اس کا خیال رکھنے لگے، اس کی خدمت کرنے لگے، اسے پیار و محبت دینے لگے تو وہ دامن پھیلا کر ، رو رو کر دعائیں دیتی ہے۔ یہی دعائیں کسی بھی انسان کی زندگی کا اصل سرمایہ ہوتی ہیں۔ماں کی دعا ان ٹریولرز چیک کی طرح ہوتی ہے جنہیں کہیں بھی اور کسی بھی وقت کیش کرایا جا سکتا ہے اور ان ٹریولرز چیک کی رقم والدین کی خدمت سے بڑھتی جاتی ہے۔ جتنی خدمت زیادہ کی جاتی ہے، ان چیکس کی مالیت اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔
دیکھا جائے تو ماں کی خدمت اور اس کے بدلے میں ملنے والی دعائیں ایک تجارت ہے اور تجارت کا یہ اصول ہے کہ جتنا گڑ ڈالو، اتنا ہی میٹھا۔ جتنی سرمایہ کاری کریں گے، اتنا ہی منافع حاصل ہوگا مگر جہاں تک ماں کا تعلق ہے تو یہ ایسی تاجر ہے جوتجارت کے تمام اصول و ضوابط کو تج دیتی ہے۔ اس کی تجارت کے اصول خود ساختہ ہوتے ہیں۔ ماں ایسی تاجر ہوتی ہے کہ اولاد اگر ایک پیسے کی خدمت کرے تو وہ ایک لاکھ کی دعائیں دے ڈالتی ہے۔وہ اپنا نفع نہیں سوچتی بلکہ صرف اولاد کا نفع اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔اگر اسے خبر ہو جائے کہ اپنا سب کچھ لٹا کر اس کی اولاد کو کچھ فائدہ حاصل ہو جائے گا تو وہ یہ خسارہ ہنستے مسکراتے برداشت کر لیتی ہے۔
ماں وہ ہستی ہے جو اولاد سے ہنسی خوشی دھوکہ بھی کھا لیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی نیت پر شک نہیں کرتی۔ اگر اولاد اس کے ساتھ برا سلوک کر بیٹھے تو وہ اسے بچوں کا نہیں بلکہ اپنی تربیت کا سقم سمجھتی ہے۔ پھر جب اس سے اولاد معافی مانگتی ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے انہیں اس طرح معاف کر دیتی ہے کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اب ذرا سوچئے کہ یہ تو ماں ہے، کہاں اللہ کریم، خالق و مالک کائنات، جو اپنے بندے سے ماں سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے، بندے کے لئے اس کی رحمت کا کیا حال ہوگا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں، اللہ کریم کی جانب سے انسان کو عطا کیا جانے والابے مثال تحفہ ہے۔ اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ جن کی ماں زندہ ہے، وہ خوش نصیب ہیں کیونکہ جنت کا دروازہ ان کے گھر میں کھلا ہے اور کچھ لوگ ہم جیسے بھی ہیں جن کی ماں دنیا سے جا چکی۔
ماں باپ کی دعائیں اولاد کے لئے صرف دنیا میں ہی مصائب و آلام کے آگے ڈھال نہیں بنتیں بلکہ آخرت میں بھی نجات کا باعث ہوتی ہیں۔ماں کے احساسات و جذبات کی خوبصورت عکاسی کرنے والا ایک شعر نذر ہے:
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا، مجھے ڈر لگتا ہے
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: