جو جو شخص ایک درہم بھی حرام کام میں خرچ کرے گا وہ فضول خرچ کہلائے گا، اما م اعظم ابو حنیفہؒ فضول خرچی کرنے کیلئے حج کے جواز کے قائل نہیں
*آج سے آپ کے سفر کا پر مشقت مرحلہ شروع ہوا ہے ۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ، مکہ مکرمہ کی طرح باقاعدہ شہر نہیں بلکہ عارضی شہر ہیں جہاں آپ کے قیام کی زیادہ سے زیادہ مدت 6دن ہے۔ گوکہ حکومت سعودی عرب نے مشاعر مقدسہ میں حاجیوں کیلئے تمام سہولتوں کا انتظام کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حج اعمال کیلئے حفظان صحت بہت ضروری ہے۔ مشاعر مقدسہ میں قیام کے دوران آپ اپنی صحت کی حفاظت کیلئے درج ذیل ہدایات پر عمل کریں: بہترین کھانا، عبادت میں معاون اور سڑا ہوا، ناقص کھانا مضر صحت اور عبادت کا لطف برباد کردیتا ہے۔ آپ مشروبات اور اشیائے خوردنی کھانے پینے سے پہلے یہ چیک کرنا نہ بھولیں کہ اس کے استعمال کی تاریخ ابھی باقی ہے یا ختم ہوچکی ہے۔ سعودی عرب کے قوانین کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں کے ڈبوں ، پیکٹوں اور بوتلوں پر استعمال کی تاریخ کا اندراج لازمی ہے۔
بعض چیزوں کو2،3 دن سے زیادہ استعمال نہیں کیا جاسکتا جبکہ کئی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ایک سال سے بھی زائد مدت کیلئے قابل استعمال ہوتی ہیں۔ ایک چیز اور چیک کیجئے کہ ڈبے یا پیکٹ پر درج استعمال کی تاریخ قابل استعمال ہونے کے باوجود کبھی کبھی ڈبہ پھول جاتا ہے یا ڈبہ کھولتے وقت اس سے گیس خارج ہوتی ہے یا ڈبے میں موجود کھانے کا رنگ بدلا ہوا ہوتا ہے یا ڈبے کا زنگ کھانے پر آجاتا ہے۔ یہ ساری علامتیں ایسی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ڈبہ کا کھانا، قابل استعمال نہیں رہا۔ سائنسی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ محفوظ غذاؤں کو آلودگی سے بچانے کیلئے اشیائے خوردونوش کے پیکٹ اور ڈبے تیار کرنے والے کارخانوں کی تمام تر نگرانی کے باوجود، ان ڈبوں کے استعمال ،طریقہ کار اور انہیں کھول کر چھوڑ دینے سے صحت عامہ کو خوفناک خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے مشور ہ دیا ہے کہ دھات کے ڈبوں کے بجائے پلاسٹک ،شیشے، المونیم یا مضبوط گتے کے ڈبے استعمال کئے جائیں ۔ اس قسم کے ڈبوں میں غذائی اشیاء کے سڑنے اور برباد ہونے کے خطرات نہ ہونے کے درجہ میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مشروبات اور سبزیوں کے پیکٹ کھول کر نہ چھوڑے جائیں بلکہ انہیں کھولتے ہی مشروبات اور سبزیاں فوراً نکال لی جائیں۔ یہ بات پلاسٹک یا شیشے کے پیکٹوں اور ڈبوں کے بارے میں بھی ہے۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو سبزیوں اور مشروبات میںکیمیکل تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے بعض ایسے عناصر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پلاسٹک ، شیشے اور گتے کی چیزیں محفوظ رکھنے کیلئے زیادہ بہتر ہیں۔ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ اشیائے خورونوش کو ڈبوں اور بوتلوں میںمحفوظ کرتے وقت بعض کیمیکل اشیاء ملائی جاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بعض کیمیکل عناصر استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے لیکن کئی کیمیکل ہنوز ایسے ہیں جن پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ محفوظ اشیائے خورونوش میں استعمال کئے جانے والے بعض رنگ، کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
اسی طرح مختلف فلیورز خوشبویات بھی دل، دوران خون اور سانس کے نظام کیلئے مضر ہیں۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ محفوظ کھانوں کو بیکٹیریا کی نشوونما سے بچانے کیلئے اینٹی بایوٹک ڈالے جاتے ہیں۔ ان سے بعض لوگوں کو الرجی ہو جاتی ہے جیسا کہ ان سے معدہ میں قدرتی وٹامن بنانے والا مادہ ختم ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسانی جسم وٹامن بنانے سے رک جاتا ہے اور اس کی جگہ جراثیم جنم لینے لگتے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ ٹونٹی سے آنے والا پانی، بوتلوں والے پانی سے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ دراصل پانی ذخیرہ کرنے کے مضر اثرات کو عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پھلوں کا محفوظ رس، جسم کو ضروری وٹامن فراہم نہیں کرتا۔ تازہ رس، صحت کیلئے مفید ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں محفوظ کرنے سے خراب ہوجاتی ہیں یا ان کی افادیت کم ہوجاتی ہے۔ زیادہ دیر تک پکائے جانے سے بھی وٹامن ناپید ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے فضول خرچی سے منع کیاہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں سورہ اسراء کی 26ویں اور 27 ویں آیت کریمہ میں اسراف سے یہ کہہ کر منع فرمایا ہے : ’’اور اسراف سے بچو، بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘ اسی طرح سورہ الفرقان میں رحمن کے اصل بندوںکی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے : ’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل ، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے‘‘ ان آیت میں اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ بخل سے بھی منع کیا ہے۔ جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرنا بھی اسلام میں فضول خرچی کے دائرہ میں آتا ہے۔ ناحق کاموں میں خرچ کرنے کو بھی اسراف شمار کیا جا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میانہ روی کو اہل ایمان کی خصوصیت اور فضول خرچی کو شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ سورہ انعام کی آیت نمبر 141 میں بیجا خرچ کرنے والوں سے ناپسندیدگی کا اظہار یہ کہہ کر کیاگیا ہے : ’’اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ امام مالکؒ فرماتے ہیں ، اسراف حرام ہے ۔ امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں، جو جو شخص ایک درہم بھی حرام کام میں خرچ کرے گا وہ فضول خرچ کہلائے گا۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ فضول خرچی کرنے کیلئے حج کے جواز کے قائل نہیں ۔ امام ماوردی کہتے ہیں ، دولت کو تلف کرنے والا ہر خرچ اسراف کے دائرہ میں آتا ہے۔ فضول خرچی پر پابندی لگائی جائے۔ سورۃ اعراف کی آیت نمبر 31 میں بھی اسراف پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اے اولاد آدم! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ او ر پیو اور حد سے مت نکلو ، بے شک ا للہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا" حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ نبی کریم حضرت سعد ؓ کے پاس سے گزرے، وہ اس وقت وضو کررہے تھے۔ رسول اللہنے فرمایا’’ اے سعد! یہ کیا فضول خرچی ہے‘‘ حضرت سعدؓ نے جواباً دریافت کیا، کیا پانی میں بھی اسراف ہے؟ رسول اکرمنے جواب دیا ’’جی ہاں! خواہ تم بہتے دریا کے کنارے بیٹھ کر ہی کیوں نہ وضو کررہے ہو‘‘‘۔ دھن دولت ہو ، کھانا پینا ہو، بجلی ہو ، پانی ہو، کسی بھی نعمت کو ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اور کسی بھی چیز کے استعمال میں حد سے تجاوز کرنا، اللہ اور اس کے رسولکو پسند نہیں۔ عام طور پر پانی زیادہ خرچ کرنے میں لوگ تردد نہیں کرتے حالانکہ ایسا کرنے سے نکاسی آب کا نظام خراب ہوتا ہے۔ پائپ بھی پھٹ جاتے ہیں۔ گندا پانی سڑک پر پھیل جاتا ہے جس سے بدبو، مکھی اور مچھر پیدا ہوتے ہیں، بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ نمازیوں کو نماز کے لئے آتے جاتے وقت تکلیف ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو ان کے کپڑے تک ناپاک ہوجاتے ہیں۔ حاجی بھائی جو ندائے ربانی پر لبیک کہتے ہوئے ارض مقدس آئے ہیں، فضول خرچی سے اجتناب کریں اور خود کو شیطانوں کی برادری میں شامل نہ کرائیں۔ قربانی عید الاضحی کے موقع پر تقرب الٰہی کی نیت سے اونٹ، گائے، بکرے کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں قربانی کا حکم دیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : ’’اے نبی ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا، پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو، تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے‘‘ سعودی حکومت نے صفائی ستھرائی ، بہترین نظم اور شرعی ضوابط کے مطابق قربانی کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی انتظامات کئے ہیں۔ قربانی کا انتظام آئی ڈی بی کے سپر دکیا ہے جو قربانی کے جانوروں کی فراہمی سے لے کر مذبوحہ جانور کے گوشت کی تقسیم تک تمام کام احسن طریقہ سے انجام دیتا ہے۔
قربانی کے لئے مذبح قائم کئے گئے ہیں اور وہاں صفائی کا بہترین بندوبست کیا ہے۔ مشاعر مقدسہ کی صفائی کا انتظام ایک قومی کمپنی کے حوالے کیاگیا ہے جو تکنیکی صلاحیتوں اور صفائی کا بہترین تجربہ رکھتی ہے۔ اس مہم کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کمپنی کے کارندے اپنی ڈیوٹی احسن طریقہ سے انجام دیتے ہیں۔ قربانی اللہ کو پسند ہے۔ اس کے معنی ہیں تقرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ اسلام شریعت میں قربانی ، عبادت کی نیت سے، ثواب کی نیت سے جانور ذبح کرنے کو کہتے ہیں۔ عازمین حج ، دنیا کے گوشہ گوشہ سے آتے ہیں اور ارض مقدس میں قربانی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ قربانی کرنے والے قدرتی طور پر چاہیں گے کہ قربانی کا گوشت محتاجوں، مسکینوں ، پڑوسیوں، دوستوں اور رشتے داروں میں تقسیم کریں۔ خود بھی کھائیں اور ضرورتمندوں کو بھی کھلائیں۔ سفر حج کے دوران دوستوں اور رشتہ داروں کو گوشت پیش کر نا ناممکن ہوتاہے۔ اسی طرح غریبوں اور محتاجوں کو سفر حج کے دوران مکہ مکرمہ یا منی میں تلاش کرنا او ر وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ لاکھوں آدمی قربانی کررہے ہیں ہو، نہایت دشوار بلکہ محال ہے۔ حاجی حضرات ارض مقدس آتے ہیں تو اپنے قیام کے ایک ایک لمحہ کو عبادت میں لگانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے انہیں جانور تلاش کرنا، جانور ذبح کرنا اور مذبوحہ جانور کو تقسیم کرنا نیز اس سے پیدا ہونے والی اور خارجہ ہونے والی گندگی کو صاف کرنا۔ انواع و اقسام کے ایسے مسائل ہیں جن سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ مکہ مکرمہ کی میونسپلٹی کو عازمین حج کے ان سارے مسائل کا ادراک ہے۔
اسی لئے جدید ترین آلات سے آراستہ سلاٹر ہاؤس بنائے گئے ہیں جہاں پوری سہولتیں دستیاب ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ سہولتیں کیا ہوسکتی ہیں۔ اس کے جواب میں ہم یہی عرض کریں گے کہ دیکھئے سب سے پہلے آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ جانور اس قابل ہے کہ نہیں، اس کا گوشت استعمال کے قابل ہے یا نہیں؟ جانوروں کا طبی معائنہ کرنے کیلئے سلاٹر ہاؤس میں ڈاکٹر تعینات ہیں۔ جانور ذبح کرنے کیلئے قصاب چاہئے ۔جانور دبح کرتے وقت جو گندگی پھیلتی ہے اسے صاف کرنے کیلئے صفائی کارکن جو مستعد اور چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ گوشت کو تقسیم کرنے اور باقیماندہ گوشت کو منجمد کرکے ضرورت مندوں کو بیرون ملک روانیہ کرنے اور اندرون ملک مسکینوں میں بانٹنے کا بندوبست ہوتا ہے۔ ذبیحہ گھروں (سلاٹر ہاؤس) سے ملحقہ جانوروں کے باڑے ہوتے ہیں جس سے اپنی پسند کا جانور خرید ا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ جملہ آسانیاں اور مطلوبہ تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی لئے مکہ مکرمہ میونسپلٹی کے حکام عازمن حج سے گزارش کرتے ہیں ۔ اب جبکہ ہم نے اپنا کام فرض احسن طریقہ سے پورا کردیا ہے اور آپ کی خدمت کے تقاضے مہیا کردیئے ہیں تو آپ بھی ہمارے ساتھ تعاون کیجئے ۔ تعاون کیا ہے؟ یہی کہ آپ جانور (سلاٹر ہاؤس) سے باہر نہ ذبح کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو اس میں گندگی پھیلی گی ۔ ماحول آلودہ ہوگا۔ گرمی اور ازدحام کے ساتھ گندگی کا نقصان بڑھ جائے گا۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ آپ نے جو جانور ذبح کیا ہو اور اس کا گوشت استعمال کرنا چاہیں وہ استعمال کے قابل ہی نہ ہو۔ آپ کھالیں اور بیمار ہوجائیں۔ آپ نے قربانی کی اور اس کا گوشت غریبوں، مسکینوں کو نہ ملے تو اس طرح قربانی کا گوشت ضائع ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں سلاٹر ہاؤس سے باہر جانور ذبح کرنا قانوناً بھی ممنوع ہے۔