Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کونپل کو مسل کر نابود کر دینا ''تنگ نظری''

شہزاد اعظم۔جدہ 
ہم اکثر سنتے ہیں کہ موبائل فون، بٹوہ یا گاڑی کی چابیاں پیش کرنے میں تاخیر ، لیت و لعل یا حجت کرنے پر ”جناب ڈاکو یا محترم لٹیرے“ نے بیگناہ کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب اس کے ساتھ موقع پر موجود بیوی بچوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ” ٹرٹر نہ کر، او مائی! جب میں نے تیرے بڈھے کو بولا کہ موبائل میرے کو دے تو اس نے ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تھی ناں، اگرایسا نہ کرتا تو آج تو بیوہ نہ ہوتی، آئندہ ”نیا بڈھا“ جو بھی ہو اسے سمجھا کے رکھیو،چل پھُٹ یہاں سے۔“
ایسی خبریں سن کر ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور خیال آتا ہے کہ جب کسی ڈاکو نے پہلی مرتبہ ایسا بہیمانہ قتل کیا تھاتو اسی وقت مجرم کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو آئندہ کسی کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ کل ہمارا تن بدن اسی آگ میں سلگ رہا تھا کہ ”سیاسی سائنس“ میں ماسٹرز کے حامل ایک دوست نے ہمارا حال دریافت کر لیا۔ ہم نے کہا کہ سرد ممالک کے انگریز وںنے اپنے عمل کے ذریعے ایک مثال قائم کی ہے کہ ”کونپل کومسوس کررکھ دینا چاہئے تاکہ وہ درخت بننے سے قبل ہی نابود ہوجائے۔“اسے انگریزی میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ”نِپ اِن دا بَڈ“، ہم انگریزکی ”بیباکیوں“ کی تو حتی المقدور”ہو بہو نقل “ کرنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن ان کی ”جرا¿توں“کی نقالی کرنا کیوں گوارہ نہیں کرتے؟ یہ سن کر ہمارے ”سیاسی سائنٹسٹ“ دوست نے کہا کہ سرد ممالک میںبسنے والے انگریز ہیں اور ہم پاکستانی۔ اُن کی اپنی ترجیحات،ضروریات اور جبلتیں ہیں جبکہ ہمارے اطوار، وسائل، مسائل اور علتیں اُن سے بالکل الگ ہیں۔ ”کونپل کو مسل کر نابود کر دینا“ انگریز کی حکمت عملی ہے جو ”تنگ نظری“ کی واضح دلیل ہے۔ ہم وسیع القلب اور وسیع النظر قوم ہیں۔ ہم کونپل کے نہ صرف درخت میں بدلنے کا انتظار کرتے ہیں بلکہ برسہا برس تک اس کے پھل بھی کھاتے رہتے ہیں اور جب اس پھل سے ہونے والے نقصانات حد سے زیادہ ہوجاتے ہیں تو ہم کلہاڑیاں لے کر نکل پڑتے ہیں اور اس درخت کو جڑ سے اکھاڑدیتے ہیں۔ یہ ہمارا وتیرہ ہے۔ہم انتہائی تحمل مزاج قوم ہیں،ذرا ذرا سی بات پر شور شرابا کرنا ہمارے شایانِ شان نہیں البتہ جب پانی سر سے اونچا ہوجائے پھر ہم ”بیخ کنی“ کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔آپ نے ڈکیتی یا رہزنی کا ذکر کیا تو دیکھ لیجئے کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد کئی دہائیوں تک ڈاکوﺅں یا رہزنوں کے خلاف کچھ نہیں کیا لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو ہمارے صاحبانِ اختیار سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے ڈاکوﺅں کی سرکوبی کے لئے کروڑوں سے زائد کا خرچہ کر کے باقاعدہ ”اینٹی ڈیکوئٹ“ فورس بنائی۔ اسے جدید اسلحہ اور نئی تیز رفتار گاڑیاں دیں۔ اس میں بعض ڈاکوﺅں کو بھی اچھے عہدوں پر فائز کیا کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ”لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔“
مزید پڑھئے :آجکل لاہور میں ٹانگے نہیں چلتے، ٹانگیں چلتی ہیں
اس طرح ہمارے ذمہ داران نے عوام کو ڈاکوﺅں اور رہزنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ”کما حقہ“ فرض ادا کر دیا۔ اسی طرح قل و خون کا سلسلہ ہے۔ پہلے کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں24گھنٹے کے دوران ایک آدھ قتل ہوتا تھا۔ پھر یہ تعداد بڑھتی گئی۔ اس وقت جب میڈیا والوں نے ایک سرکاری عہدیدار سے استفسار کیا تو انہوں نے انتہائی فصیح و بلیغ اور روزِ روشن کی طرح واضح اور مبنی بر صداقت جواب دیا تھا کہ ”میاں!ایک کروڑ40لاکھ کے شہر میں اگر 4یا8افراد قتل کر دیئے جاتے ہیں تو اسے آپ ”امن و امان“ کا مسئلہ قرار نہیں دے سکتے۔یہ تعداد بعدازاں زائد ازدرجن یومیہ ہوئی توپھرکروڑوں سے زائد کا خرچہ کر کے مختلف ناموں سے اسکواڈ تشکیل دیئے گئے۔ یہ ہے ہماراوتیرہ یا طریقہ۔ ہم نے سوال کیا کہ آج کل وطن عزیز میں کون سا شعبہ¿ حیات ایسا ہے جس میں پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں ”تصلیحِ سیاست“ کا ایک ”ورشہ“کھولنے کی کوششوں میں ہوں۔اس کوشش میں مجھے 17کروڑ افراد نے ”دامے، درمے، قدمے، سخنے، مالے، جانے “تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اس ”ورشے “کو عالمی سائنس انسٹیٹیوٹ کی جانب سے باقاعدہ منظوری دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس میں نہ صرف اکثرسیاسی قائدین کو بلکہ مستقبل میں ”اقتدار“ کا خواب دیکھنے والوںکو بھی اپنی ”تصلیح“ کا تصدیق نامہ لینا ہوگا۔اس کے بعد ہی وہ ”کرسی“ کے طالبوں کی فہرست میں شامل ہو کر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے مجاز قرار پائیں گے۔ انہیں اس ”ورشہ¿ تصلیح“ میںسکھایا جائے گا کہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے والا ”سیاسی قائد“ اور اُن کی لترول کرنے والا’ ’آمر“کہلاتا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کرنیوالا محب وطن اور پردیس میں قومی دولت جھونکنے والا مفاد پرست کہلاتا ہے۔ قومی خزانہ صرف اور صرف ملکی ترقی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اغیار کے اشاروں پر چلنے والا کٹھ پتلی کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیںشستہ انداز میں قومی زبان بولنا،بیانات دینااور جاری کرنا بھی سکھایا جائے گا تاکہ ملک اور بیرون ملک اُن کا وقار اس طرح پامال ہونے سے بچ جائے جیسا آجکل کئی ایک سیاستدانوں کا ہو چکا ہے۔سیاسی سائنسداں کی گفتگو سن کرہمارے ذہن میںوطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کی نئی امیدیں انگڑائیاں لینے لگیں اور کل شب ہم اس ورشہ¿ تصلیح کو خواب میں بھی دیکھ بیٹھے۔
 

شیئر: