سعودی عرب میں ’امام عبدالعزیز بن محمد رائل ریزرو ڈیویلپمنٹ اتھارٹی‘ نے ہیرٹج کمیشن کے ساتھ مل کر قدرتی ریزروز میں ثقافتی ورثے کے موضوع پر ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق یہ ورکشاپ، ان قومی کوششوں کا تسلسل ہے جن کے تحت ثقافتی اور ماحولیاتی جہتوں کو مربوط کیا جائے گا اور قومی شناخت کو قدرتی ریزروز کی تعمیر و ترقی اور ان کے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر فروغ دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
ریاض کے قریب شاہی ریزرو جہاں ہزاروں درخت لگائے جا رہے ہیںNode ID: 890986
-
سعودی رائل ریزرو میں آئی بیکس کے دو بچوں کی پیدائشNode ID: 892730
-
سعودی رائل ریزرو کی ماحولیاتی چیلنجز سے نمنٹنے کے لیے کوششیں تیزNode ID: 892839
اس ورکشاپ میں کئی سپیشلسٹ اور ماہرین نے شرکت کی اور قدرتی ریزروز میں غیرمحسوس ثقافتی ورثے سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان ریزروز کی حفاظت اور اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے مقامی کمیونٹی کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ انیشیٹیو، ثقافتی میراث کے تحفظ، حیوانات اور نباتات کے یکجا ہونے سے پیدا ہونے والے متوازن ماحول کی حفاظت اور سیاحت کے ایک مربوط تجربے کو تخلیق دینے کے لیے قومی اداروں کی مل جُل کر کام کرنے کی کوششوں کو ظاہر کرتا ہے جس سے ماحولیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کے حوالے سے سعودی شناخت کا مالا مال ہونا نمایاں ہوتا ہے۔
91 ہزار500 مربع کلو میٹر کے ایریا پر پھیلے ہوئے اس ریزرو پر، وسیع پیمانے پر بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں درخت لگائے جا رہے جن میں ببول کی شجرکاری خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔
سعودی پریس ایجنسی نے بتایا ہے کہ ریزرو کی بحالی ’سعودی گرین انیشیٹیو‘ کے عین مطابق ہے جس کا مقصد یہاں سبزے کو پھر سے توانائی مہیا کرنا اور ماحولیاتی توازن کو بحال کرنا ہے۔
ببول جیسے کیکر کا درخت بھی کہتے ہیں، ان کوششوں میں اہم کردار کا حامل ہے کیونکہ اس میں صحرا کے موسموں کی سختیاں برداشت کرنے اور بیماری سے لڑ کر تندرست ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
ماحولیاتی اعتبار سے بھی ببول کا کردار اہم ہے۔ کیکر کے درخت، جنگلی حیات کے لیے چارہ، سایہ اور قدرتی پناہ گاہ کا کام کرتے ہیں اور مٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاتے ہیں۔ ان درختوں پر نکلنے والے پھولوں کے رس سے عمدہ کوالٹی کا شہد بھی بنتا ہے۔