پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا جاپان کا پانچ روزہ سرکاری دورہ ملک میں سیاسی اور معاشی بحث کا محور بنا ہوا ہے۔
حکومت اس دورے کو پنجاب کو جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دے رہی ہے جبکہ ناقدین اسے غیرضروری خرچ کی مثال قرار دے رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کے اس دورے کا آغاز 15 اگست 2025 کو ہوا اور اس میں یوکو ہاما، ٹوکیو اور دیگر مقامات کا سفر شامل تھا جہاں ویسٹ مینجمنٹ، ہیلتھ کیئر، اربن ڈویلپمنٹ اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز رہی۔ تاہم وفد کے ارکان کی بڑی تعداد اور بھاری اخراجات نے سیاسی مخالفین اور سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پنجاب میں پیرا فورس کی کارروائیوں سے تاجر کیوں پریشان ہیں؟Node ID: 893159
-
پنجاب کے ’دانش سکول‘ کے طلبا کا پہلا بیچ اس وقت کہاں ہے؟Node ID: 893184
حکومت کا موقف ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کا یہ دورہ جاپان کی جانب سے دی گئی خصوصی دعوت پر کیا گیا ہے اور یہ پاکستان کی کسی خاتون وزیراعلیٰ کا پہلا سرکاری دورۂ جاپان ہے۔
اس دوران مریم نواز نے یوکو ہاما شہر کا دورہ کیا جو جاپان کا تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے۔ وہاں اربن ڈویلپمنٹ، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور جدید انفراسٹرکچر پر بریفنگ لی گئی۔
پنجاب اور یوکو ہاما کے درمیان ’سٹی ٹو سٹی‘ تعاون پر اتفاق ہوا جس میں لاہور اور اسلام آباد کے درمیان تیز رفتار ٹرین، چیئر لفٹس اور ائیر کیبل کار منصوبوں پر غور کیا گیا۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ نے جاپان کے سب سے بڑے ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا معائنہ کیا اور پنجاب میں اسی طرز کا نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا۔
انہوں نے نیشنل سنٹر فار گلوبل ہیلتھ اینڈ میڈیسن کا دورہ بھی کیا جہاں ذیابیطس، جگر کی بیماریوں اور متعدی امراض کے علاج پر بریفنگ لی گئی۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے جاپان ایکسٹرنل ٹریڈ آرگنائزیشن (جیٹرو) کے سربراہ سے ملاقات کی اور پنجاب کے سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب جاپان کو سرجیکل آلات، چمڑے کی مصنوعات اور باسمتی چاول برآمد کر سکتا ہے جبکہ جاپانی کمپنیوں کو نواز شریف آئی ٹی سٹی میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی گئی۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پنجاب کو ایک جدید صوبہ بنانے کی طرف اہم قدم ہے اور اس سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔ مریم نواز نےکہا کہ ’پنجاب کو جاپان کی طرز پر ٹیکنالوجی کی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں۔‘
دوسری جانب مریم نواز کے مبینہ 20 ارکان پر مبنی ارکانِ وفد اور بھاری اخراجات پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دورے کے لیے لگژری ہوٹلز، ٹرانسپورٹ اور تحائف کے لیے تقریباً 16 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم پنجاب کی موجودہ معاشی صورتحال میں غیرضروری قرار دی جا رہی ہے جہاں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک صوبائی سطح کا دورہ اتنا مہنگا کیوں ہے اور کیا یہ ٹیکس پیئرز کے پیسوں کا درست استعمال ہے؟
وفد میں سینیئر وزیر مریم اورنگزیب، صوبائی وزراء اور افسران شامل ہیں تاہم ناقدین کا دعویٰ ہے کہ تخمینی اخراجات 10 کروڑ روپے تھے لیکن ایڈوانس ادائیگی 16 کروڑ تک پہنچ گئی۔ یہ تنقید سیاسی حلقوں سے لے کر سوشل میڈیا تک پھیل چکی ہے جہاں اسے ’سیر و تفریح‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس دورے کی حمایت اور مخالفت دونوں سے متعلق پوسٹس نظر آ رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے آفیشل اکاؤنٹس اور حامیوں نے اس دورے کو تاریخی قرار دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے آفیشل اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا تاریخی دورہ جاپان۔ مقصد: ویسٹ مینجمنٹ کے لیے جاپانی ٹیکنالوجی کا حصول اور پنجاب میں بیرونی سرمایہ کاری لانا۔ #سی ایم مریم ان جاپان‘۔ یہ ٹویٹ 200 سے زائد لائیکس اور ری پوسٹس حاصل کر چکا ہے۔

ایک اور وائرل ٹویٹ مریم نواز ہیڈکوارٹر سے ہے ’چین اور ترکی کے بعد مریم نواز اب جاپان کی سرکاری مہمان بنیں۔ یہ ایک صوبائی سی ایم کے طور پر تاریخی ہے، جو انہیں مستقبل کی پی ایم بننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘
ایک ایکس صارف تحسین علی نے لکھا کہ ’پاکستان کے سیلاب اور قرضوں کے بحران میں عوام کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے مریم نواز کا جاپان دورہ غیرضروری اخراجات کا واضح ثبوت ہے۔ سرکاری وسائل کو ذاتی تشہیر اور عیاشی پر خرچ کرنے کے بجائے، ترقیاتی منصوبوں اور عوامی بہبود پر توجہ دینی چاہیے۔‘
ایک اور تنقیدی ٹویٹ میں شایان بشیر نے کہا کہ ’مریم نواز کا دورہ جاپان خودنمائی اور اشتہاری تماشہ ہے، جس کے لیے قومی خزانے پر بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے۔ درجنوں صحافیوں کو حکومتی خزانے پر ساتھ لے جانا عوام کے پیسے کی کھلی لوٹ مار کو بےنقاب کرتا ہے۔‘

پاکستان کے دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے غیرملکی دوروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ نسبتاً کم نظر آتے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے 2024-2025 میں سعودی عرب اور دبئی کے دورے کیے جو سرمایہ کاری اور حج امور سے متعلق تھے لیکن جاپان جیسا تفصیلی دورہ نہیں کیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ترکی اور سعودی عرب کے دورے کیے جو سکیورٹی اور سرمایہ کاری سے متعلق تھے تاہم وفد کی تعداد اور اخراجات کم تھے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایران اور سعودی عرب کے دورے کیے جو گیس اور تجارت سے جڑے تھے۔