قبضہ اور خیالی ہاؤسنگ سکیم، پولیس کانسٹیبل کے ہاتھوں راوی کنارے بکھری امیدوں کی کہانی
قبضہ اور خیالی ہاؤسنگ سکیم، پولیس کانسٹیبل کے ہاتھوں راوی کنارے بکھری امیدوں کی کہانی
بدھ 20 اگست 2025 5:26
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
کاغذوں میں یہ سوسائٹی ایک جدید اور منفرد رہائشی منصوبہ دکھائی دیتی تھی، لیکن حقیقت میں اسے دریائے راوی کے بیڈ پر غیرقانونی طور پر قائم کیا گیا تھا۔ (فوٹو: ایکس)
لاہور کی ہنگامہ خیز شاہراہوں سے گزرتے ہوئے جہاں زندگی کی چہل پہل اور خوابوں کی بلند عمارتیں دکھائی دیتی ہیں، وہاں ایک ایسی کہانی چھپی ہے جو دل دہلا دیتی ہے۔
دریائے راوی کا کنارہ، جو کبھی قدرتی خوبصورتی کا مرکز تھا، اب دھوکے اور لالچ کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
یہاں ایک سابق پولیس کانسٹیبل، جو خود قانون کی گرفت سے آزاد ہو چکا تھا، نے درجنوں غریب افراد کی زمینیں ہڑپ کر کے ایک جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کر دی۔ لوگ اپنی محنت کی کمائی لگا کر پلاٹ خریدتے رہے، لیکن ان کے ہاتھ صرف مایوسی اور نقصان آیا۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ لاہور نے اس فراڈ کا پردہ اس وقت چاک کیا جب انہوں نے اس سکیم کے مبینہ مالک کو گرفتار کر لیا۔
فراڈ کا جال: یہ کھیل کیسے شروع ہوا؟
یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب متاثرین کی جانب سے شکایات کا انبار لگ گیا۔ وہ افراد، جو لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی میں ایک چھوٹے سے گھر کا خواب دیکھ رہے تھے، ان کے سامنے ’تھیم پارک ہاؤسنگ سوسائٹی‘ کے نام سے ایک پرکشش پیشکش رکھی گئی۔
کاغذوں میں یہ سوسائٹی ایک جدید اور منفرد رہائشی منصوبہ دکھائی دیتی تھی لیکن حقیقت میں اسے دریائے راوی کے بیڈ پر غیرقانونی طور پر قائم کیا گیا تھا۔
متاثرین جن میں زیادہ تر نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ شامل ہیں، انہوں نے قسطوں پر پانچ مرلہ کے پلاٹ خریدے اور بھاری رقوم ادا کیں مگر بدلے میں کچھ نہ ملا۔
محکمہ اینٹی کرپشن کے ایک سینیئر افسر کے مطابق، ’اس سکیم کا مالک، خوشی محمد، ایک بدنام شخص ہے جس نے سینکڑوں افراد کی محنت کی کمائی ہتھیالی۔ وہ پہلے پولیس کانسٹیبل تھا، لیکن سنگین الزامات کے باعث نوکری سے برخاست کر دیا گیا، جس کے بعد اس نے رئیل اسٹیٹ کے نام پر دھوکہ دہی شروع کی۔‘
منظم چالاکی: جعلی سکیم، جعلی قبضے
خوشی محمد نے ایک منظم نیٹ ورک تشکیل دے رکھا تھا، جو زمینوں پر قبضہ کرنے اور جعلی فروخت کے ماہر افراد پر مشتمل تھا۔
اس نے ابتدا میں ملتان روڈ پر پولیس ٹریننگ سینٹر کے قریب چند درجن کنال زمین خریدی۔ اس زمین کو ’تھیم پارک ہاؤسنگ سوسائٹی کا پہلا فیز‘ کہہ کر مارکیٹ کیا گیا، لیکن اس کے لیے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹیسے کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی۔
خوشی محمد نے ایک منظم نیٹ ورک تشکیل دے رکھا تھا، جو زمینوں پر قبضہ کرنے اور جعلی فروخت کے ماہر افراد پر مشتمل تھا۔ (فوٹو: فیس بک)
مذکورہ افسر کے مطابق ’خوشی محمد انتہائی ہوشیار تھا۔ چونکہ وہ پولیس کا سابق اہلکار تھا، اس لیے اسے مقامی پولیس سے معاملات نمٹانے کا ہنر آتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مقامی افراد سے زمین ٹوکن منی پر خریدتا اور پھر راتوں رات مسلح گارڈز تعینات کر کے زمین پر قبضہ کر لیتا۔‘
راتوں رات تعمیرات، اصل مالکان لاعلم
اس نیٹ ورک کی گہرائی میں جھانکیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خوشی محمد کس قدر چالاکی سے کام کرتا تھا۔ زمین حاصل کرنے کے بعد وہ فوراً بھاری مشینری جیسے کرینیں اور بلڈوزر منگوا کر سڑکیں اور بلاکس بنا دیتا۔ پانچ مرلہ کے پلاٹس کاٹے جاتے اور اصل مالکان کو لاعلم رکھا جاتا۔
ایک علیحدہ ٹیم مقامی تھانوں میں جھگڑوں کو طول دیتی اور معاملات کو قانونی الجھنوں میں الجھا دیتی۔ افسران کے مطابق، خوشی محمد نے اب تک پانچ سے بیس کنال تک کی متعدد زمینیں قبضے اور دباؤ سے حاصل کیں، اور اس کی جعلی سوسائٹی دریائے راوی کے بیڈ میں 2,000 کنال تک پھیل چکی ہے۔ یہ سوسائٹی نہ تو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے منظور شدہ ہے اور نہ ہی ایل ڈی اے سے۔
معاملہ کیسے کھلا؟
یہ سارا معاملہ ایک متاثرہ شخص، عمیر، کی شکایت پر کھلا۔ اینٹی کرپشن نے اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے خوشی محمد اور اس کے مبینہ فرنٹ مین جاوید کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔
ایف آئی آر کے مطابق، خوشی محمد نے عمیر کی 20 کنال زمین کے لیے چار کروڑ روپے طے کیے، اور ایڈوانس میں صرف ایک لاکھ روپے دیے۔ وعدہ کیا کہ اگلے دن باقی رقم دے کر معاہدہ مکمل کرے گا۔ لیکن اسی رات، خوشی محمد نے اپنے ساتھیوں کو بھیج کر زمین پر قبضہ کر لیا، سڑکیں بنوائیں، پلاٹس کاٹے اور مسلح گارڈز تعینات کر دیے۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ لاہور نے اس فراڈ کا پردہ اس وقت چاک کیا جب انہوں نے اس سکیم کے مبینہ مالک سابق پولیس کانسٹیبل کو گرفتار کر لیا۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
جب عمیر کو غیرقانونی قبضے کا علم ہوا، تو وہ پولیس کے پاس گیا۔ وہاں خوشی محمد نے جعلی دستاویزات دکھا کر زمین کو متنازع‘ قرار دیا اور عمیر کو بلیک میل کیا۔ نتیجتاً، عمیر کو چار کروڑ کی زمین 85 لاکھ روپے میں بیچنے پر مجبور کیا گیا۔ اس پر بھی خوشی محمد نے نقد ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے اسے ایک گاڑی کی پیشکش کی، جس کی قیمت مبینہ طور پر 85 لاکھ بتائی گئی۔ بالآخر، عمیر نے اینٹی کرپشن کو شکایت درج کروائی۔
گرفتاری اور تفتیش جاری
اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، عمیر کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے خوشی محمد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اور اب تک 25 سے زائد متاثرین کی شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ تفتیش اپنے آخری مراحل میں ہے اور آئندہ دنوں میں سابق کانسٹیبل کے خلاف مزید کیسز درج کیے جانے کا امکان ہے۔