Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

میں نے اس نقصان کو برف فروش کی صداسے پہچانا جو بآوازبلندپکارتاچلاجارہاتھاکہ لوگو !میراسرمایہ پگھلتا چلاجارہا ہے ،کوئی تو خریدلو

* * *ڈاکٹر ساجد خاکوانی۔اسلام آباد* * *
ایک سال بھرکی عمرعزیزگویاایک پگھلتی ہوئی برف کی سل ہے جو ہر ہر لمحے اپنے وجود سے عدم کی طرف گامزن ہے۔اگرچہ فرد کے سال کاآغازتواس کی پیدائش سے ہی ہوجاتاہے لیکن ظاہرہے کہ ہرہرفرد کے لئے الگ الگ سے کیلنڈر بناناتو ممکن نہیں ،پس صدیوں سے انسان نے اپنے اجتماعی نظام کی بارآوری کے لئے ایک سال کی مدت کو اپنارکھاہے۔اسی کیلنڈر سے مہینوں ،ہفتوں اور دنوں کاحساب بھی چلتاہے۔یہیں سے موسموں کے تغیر کو بھی تخمین کر لیاجاتاہے اور یہیں سے فصلوں ،نسلوں اور قوموں کی پختگی وعروج و زوال کے دورانئے کا فیصلہ بھی کرلیاجاتاہے۔دنیابھرکے کم و بیش تمام مذاہب بھی اپنا اپناجداگانہ کلینڈر رکھتے ہیں اور اسی کیلنڈر کے مطابق جہاں انکے مذہبی سال کا آغاز ہوتاہے وہیں ان کے جملہ مذہبی تہوار بھی اسی کیلنڈرکی تاریخوں کے تحت استوار کیے جاتے ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم تہذیبیںچونکہ ہمیشہ سے مذاہب کے زیراثر رہی ہیں اس لئے اگر کہیں کسی تہذیب نے اپنا الگ سے بھی کیلنڈر بنایاتو وہ مذہب کی گرفت سے نکل نہ سکا۔جیسا کہ یورپی سیکولرتہذیب نے اگرچہ اپنے آپ کو مذہب سے جداکرنے کا نعرہ لگایااور علیحدہ کیلنڈر بھی ترتیب دیا لیکن اسے مذہب عیسائیت کے اثرات سے بچانہ سکے چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداداور حکومتیں بھی پوری دنیامیں اس وقت عیسوی کیلنڈرکورائج کیے ہوئے ہیںاورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات چونکہ مسلمانوں کے پاس ہیں اور وہ بھی اسی طرح دین اسلام کے سچے نبی تھے جس طرح باقی کل انبیاء علیہم السلام بشمول محسن انسانیت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تھے اسی لئے یہ کیلنڈر بھی کلیہ اسلامی کیلنڈر ہے ۔قرآن مجید نے برملا دیگرمذاہب کو اپنی مشترکات کی طرف دعوت دی ہے اس لئے یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ عیسوی سال مسلمانوں اور مذہب مسیحی کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔
    اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا :
     ’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف بڑھتاچلا جارہا ہے۔‘‘
    محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
     ’’جس کاآج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا۔‘‘
    ’’سال‘‘ ایک فرد کی انفرادی و ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا دورانیہ ہوتاہے۔ایک سال کے دوران کئی منصوبے،بے شمارارادے اور کتنے ہی ترتیب د ئیے ہوئے انسانی قیاسات و اندازے و تخمینے گزر جاتے ہیں۔سال کے آخر میں انسان سوچتا ہے کہ ان میں سے کتنے پایہ تکمیل کو پہنچے ،کتنے ہنور زیر تکمیل ہیں اور کتنے ہی ہیں جو محض ہوا میں تحلیل ہو کر آرزوؤں،خواہشات اور امنگوں کی شکل اختیارکرکے تو وقت کے دبیزتہہ میں دب کر قبرماضی میں دفن ہو چکتے ہیں۔ان میں سے کچھ کی کسک سینے میں چبھتی رہتی ہے اور کچھ نسیان و فراموشی کی منزل کو پا لیتے ہیں۔گویاارادے سے شعور اور شعور سے تحت الشعور اور پھر لاشعور کے راستے انسانی وہم و گمان سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پس اس خاص تناظر میں مذکورہ بالا قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتنا برموقع ہے کہ اگرچہ ہر دن کے اختتام پر خوداحتسابی کے عملِ پیہم سے گزرناایک خوشگوار عادت ہے لیکن دن کے حجم کو ایک سال کی وسیع ترمدت پر قیاس کیاجائے تو تصویر بہت کچھ واضح ہو جاتی ہے اور انسان اپنا کچھا چٹھاخود سے ملاحظہ کر کے اپنی بڑھوتری یا خسارے کااندازہ لگا لیتاہے۔
    ایک سال کے اختتام پر اور آئندہ سال کے آغاز پر قرآن مجید نے اپنے ایک خاص انداز سے بہت خوبصورت تبصرہ کیاہے۔سال چونکہ زمانے کی ایک اکائی تصورکی جاتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھاتے ہوئے انسان کے نقصان کو واضح کیاہے گویازمانے کی اس مدت کے گزرنے پر انسان نقصان کاشکارہوگیا۔خودقرآن مجید نے انسانی مہلت کو وقت سے تعبیر کیاہے اور جتناوقت انسان کو ملااس میں سے ایک سال گزرنے کامطلب ہے ایک سال کا نقصان ہوگیااور وقت کے استعارے جو دولت انسان کو میسرآئی تھی اب وہ مزید کمی کاشکار ہوتے ہوئے تنزل پزیر ہے۔
    قرآن کا یہ تصور عقل و خرد انسانی سے کتنا قریب تر ہے کہ انسان کے ان تقاضوں اور پیمانوں پر عین پورا اترتا ہے جو خود حضرت انسان  نے اپنے کامیابی و ناکامی کیلئے تراش رکھے ہیں۔طالبعلم کو امتحان گاہ میں ایک خاص وقت کیلئے پرچہ تھمایاجاتاہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعلان کیاجاتارہتاہے کہ اب اتنا وقت گزرگیایااتنا وقت رہ گیا۔وقت کے اسی پیمانے پر طالبعلم اپنی کارکردگی کو جانچتا اورتولتا چلا جاتاہے اور جتناوقت گزرتاچلاجائے وہ اسکے مدتِ امتحان سے منہاکرلیاجاتاہے اورپھربقیہ وقت میںوہ اپنی کارگردگی کو اس تیزی سے پورا کرتاہے کہ وقت ِ گزشتہ کے نقصان کو پوراکر سکے۔اسی طرح فی زمانہ ایک مخصوص مدت کیلئے برسراقتدارآنیوالے حکمرانوں کی کارکرد گی کو وقت کے پیمانوں سے جانچااورپرکھا جا تاہے کہ کتنی مدت گزرگئی اور کتنی کامیابیاں حاصل کر لی گئیںیا نہیں حاصل کی جا سکیں۔
    ایک سال کااختتام اور اگلے سال کی آمد پر قرآن کے اس تبصرے کو امام رازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے ایک اورمثال سے بھی روشن کیاہے۔وہ لکھتے ہیں:
    ’’ میں نے اس نقصان کو برف فروش کی صداسے پہچانا جو بآوازبلندپکارتاچلاجارہاتھاکہ لوگو !میراسرمایہ پگھلتا چلاجارہا ہے ،کوئی تو خریدلو۔‘‘
    ہرمنصوبہ ایک خاص مدت کے لئے مرتب کیاجاتا ہے اور وہ مدتِ مقصودہی اس کی کامیابی یاناکامی کی دلیل ثابت ہوتی ہے۔
    یک سال کااختتام اگلے سال کاآغازانسان کو دعوتِ فکردیتاہے کہ کیاکھویااورکیاپایا؟انسان کا مقصدِ وجودعبادت ہے،پس انسان شعور سے وفات تک عبادت گزار ہی رہتاہے۔کہیں تو ایک اﷲ کی عبادت کرتاہے تو کہیں اپنی خواہشات نفسانی کی عبادت کرتاہے،کوئی انسان پیٹ کا پجاری ہے تو کوئی پیٹ سے نیچے کا خواہشمند اور کسی نے دولت،شہرت اور اپنے پیشے کو اہم تصور کرلیاہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی قوم،رنگ،نسل ،علاقہ اور اپنی زبان کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے چلے جارہے ہیں اور انسانوں کے ہر قبیلے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اقتدارکے بت کا پجاری ہے اور اسے دین فروخت کرنا پڑے یااپنے ایمان کا سوداکرنا پڑے یا پھر اپنے ملک و ملت اور قوم کو داؤپر لگاناپڑے، وہ کسی بھی قیمت پر اقتدارکے اس بت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا۔انسان چاہے یا نہ چاہے وہ بہرصورت ایک پجاری کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اگرچہ اپنی پجارت و عبادت کووہ کیسے ہی دیگر ناموں سے موسوم کر بیٹھے۔پس جس کسی نے اپنا ایک سال کا سرمایۂ عظیم ایسی عبادت میں گزاراجس سے اسے نفع ہواتو وہ کامیاب ہے اورجس کی عبادت نے اسے نقصان سے ہمکنارکیااس کاسال اسی طالب علم کی طرح ضائع ہوگیاجو ایک بار پھر گزشتہ جماعت میں بٹھادیاگیا۔
    کامیابی کے بے شمار پیمانے ہمیشہ سے قبیلہ بنی آدم میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ان کو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات نے2 ہی حصوں میں تقسیم کیاہے:دنیاکی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ۔پس جس نبی علیہ السلام سے منسوب ایک سال کااختتام اور دوسرے کاآغاز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات آخرت کی کامیابی کی طرف بلاتی ہیں۔کیاہی خوبصور ت بات ہو کہ جس رب کی طرف انسان کھنچاچلاجارہاہے، اس کی طرف خود اپنی مرضی سے بڑھتاچلاجائے اور تمام جھوٹی عبادتوں کو خیرآبادکہتے ہوئے ایک سچی عبادت کواپنی زندگی میں اپنالے۔روزانہ کی بنیادپر خود احتسابی،پھر ہفتہ وار خود احتسابی اور پھر ماہانہ بنیادوں پر خود احتسابی کے بعد سال کے اختتام پر دیکھاجائے کہ ہم انفرادی طورپرکہاں ہیں اور بحیثیت قوم اوربحیثیت امت ہم نے کیاحاصل کیا۔
    بحیثیت فرد کے موت ہر وقت پیش نظر رہے کیونکہ محسن انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے پوچھا:کتنا زندہ رہنے کی توقع ہے؟عرض کیا:ایک جوتاتو پہن چکاہوں دوسرے کی خبر نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے تو بہت لمبی امید باندھ لی اور پھرارشاد فرمایا:
    ’’مجھ کو توآنکھ جھپکنے کی بھی توقع نہیں کہ اتنی مہلت بھی ملے گی کہ نہیں۔‘‘
    یہ ایک فرد کے لئے تعلیمات ہیں جبکہ کُل امت کے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے روم اور ایران کی کنجیاں اور بحرین کے خزانوں کی پیشین گوئیاں فرمائی جا رہی ہیں۔پس ہمارا سال اس طرح گزرے کہ ایک فرد کی حیثیت سے رخت سفر ہمہ وقت تیارہے اور مسافر پابہ رکاب رہے لیکن اپنے عقیدہ و ملک و ملت اور آنے والی نسلوں کے لئے اتنی بڑی قربانی کا جذبہ ہو کہ صدیوں تک ان کی بالادستی دنیاپر قائم کرنا پیش نظر ہو۔
    نقصان پر خوشیاں منانا اور لھولعب اور بدمستیوں میں راتیں گزارنا کہیں کی عقلمندی نہیں ۔ہر نقصان دعوتِ فکر دیتاہے اور فکرکے لمحات کوآوارگی کی نظر کرنا بے ہودگی اور واہیاتی کی علامات ہیں۔ہمارادشمن ہمیں ہمارے نقصان سے بے خبر رکھ کر ہمیں فتح کرناچاہتاہے۔ 300سالہ دورغلامی کے دوران انگریز نے اپنی خوبی توکوئی بھی ہمارے اندر نفوذپزیرنہیں ہونے دی لیکن اپنی خباثتیں ساری کی ساری چھوڑ گیااور ایک بہت موثرطبقہ ہمارے درمیان باقی رکھ گیاجو آج تک اسی کاذہنی غلام ہے اور اسی کی تہذیبی و ثقافتی باقیات سے چمٹا ہے۔سیکولرمغربی تہذیب کادلدادہ یہ طبقہ عبداﷲ بن ابی اور میرجعفرومیرصادق کاکرداراداکرنے والا دوقومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کے پنجے آج تک ہماری نسلوں کی گردنوں پر پیوست ہیںاور ہمارا خون نچوڑ کر اپنے آقاؤں کا دوزخ بھرنے اورہمیں سود کی دوزخ میں جلاناچاہتاہے لیکن اب وقت نے کروٹ لے لی ہے اور بہت جلد یہ طبقہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو گااور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گریں گی،انشاء اﷲ تعالیٰ۔
 

شیئر: