Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا مقابلہ کس سے؟

 محمد السعیدی۔ الوطن
گزشتہ صدی ہجری کے نویں عشرے کے اوائل میں مارکسس ازم اورنیشنل ازم کیساتھ کشمکش میں سعودی عرب فتح یاب رہا۔ کئی برس بظاہر عداوت سے پاک گزارے۔ سعودی عرب داخلی ترقیاتی منصوبے اور خارجی اصولی پالیسی کے منصوبے کیلئے یکسو رہا۔ مملکت امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق اور اسلام کے صحیح تصور کی ترویج کو اپنا نصب العین بنائے رہی۔ مملکت کی کوشش تھی کہ وہ مشرقی اور مغربی دنیاﺅں میں رائج مذاہب کو آلودہ کرنے والی افسانوی سوچوں اور عقائد سے نجات دلائے۔ سعودی عرب نے غیر مسلموں میں اسلام کی نشرو اشاعت پر بھی توجہ مرکوز کی۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے دنیا بھر میں انسانی و امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ بنایا۔ مملکت کے تربیتی ، تعلیمی اور ابلاغی شعبوں پر مسئلہ فلسطین ہی چھایا رہا۔ یہ واحد سیاسی مسئلہ تھا جس پر سعودی مجلسوں میں مکالمے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں ریاست اور مذہبی اداروںکے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا۔ ہم سب کو ایسا لگتاتھا کہ ریاست اور مذہبی اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بس اتنی بات تھی کہ بعض ادارے دعوتی اور شرعی امور میں زیادہ دلچسپی لیتے۔ زیر بحث آنے والے افکار ونظریات ریاست اور امت کے درمیان عہد وپیمان کے دائرے سے سرمو منحرف نہ ہوتے حالانکہ یہ عہد وپیمان تحریری نہیں تھا۔
میرے خیال میں یہ دور 8برس سے زیادہ نہیں چلا۔ یہ 1392ھ سے لیکر 1400ھ تک برقرار رہا۔ گویا نیشنل ازم کے سقوط یا سکڑنے اور خمینی کے شیعہ منصوبے اور اہل سنہ کی فکری تحریک ابھرنے کے دورانیہ میں اسکا سلسلہ چلتارہا۔
جہاں تک خمینی کے منصوبے کا تعلق ہے تو اسکے آغاز میں فلسطین مسلمانوں کا پہلا مسئلہ نہیں تھا۔ خمینی نے ایرانی انقلاب کی شروعات اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کیلئے ٹھوس جدوجہد سے کی۔ انہوں نے ا پنی کتابوں کشف الاسرار اور اسلامی حکومت میں سنیوں ، سلفیوں اور سعودی عرب سے مکمل عداوت کا برملا اظہار کیا۔ اسکے باوجود اسلامی تحریکوں کے قائدین اور ان سے وابستگان خمینی کی فکر کے جال میں پھنستے رہے۔
جہاں تک سنی فکر کی تحریک کا معاملہ ہے تو بنیادی طور پر یہ سعودی عرب کیلئے نئی نہیں تھی۔ یہ تحریک عصر حاضر میں احیائے اسلام کی تحریک کے بڑے ترکے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ اس میں الاخوان المسلمون اور عرب ممالک میں ان سے متاثر دانشور شریک تھے۔ان میں سے کئی سعودی عرب منتقل ہوگئے۔ یہ لوگ اپنے ہمراہ وہی افکار و نظریات لائے جن کی بنیاد پر یہ لوگ اپنے یہاںرائج نظریات سے ٹکرا رہے تھے۔ یہ لوگ تمام ریاستوں کو اسلامی نظام سے خارج مانتے تھے۔ انکے دانشوروں کی تحریروں پر اسی طرح کے افکار کا غلبہ تھا۔ وہ اس الزام سے سعودی عرب کو بھی استثنیٰ نہیں دیتے تھے البتہ نجی مجلسوں میں اتنا کہنے پر اکتفا کرتے تھے کہ مملکت کا حال دیگر مسلم ملکوں کے مقابلے میں اس حوالے سے قدرے بہتر ہے۔ اس غیر ملکی اورظالمانہ سوچ سے بعض سعودی نوجوان متاثر ہوئے۔ 1400ھ میں بعض نوجوانوں نے حرم شریف پر قبضہ کرلیا۔ اسی کے ساتھ تکفیری تحریک ابھر کر سامنے آئی۔ یہ القاعدہ تنظیم کے ساتھ ساتھ معرض وجود میں آئی۔ 
خمینی کی تحریک نے سعودی عرب کو اس کے توسیع پسندانہ انقلابی منصوبے کا حریف بنادیا۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ 8سالہ جنگ میں عراق کی بھرپور مدد کی۔ ایران نے سعودی عرب کے شیعہ فرقے کے لوگوں کی تائید و حمایت کی۔ علاوہ ازیں القاعدہ سے لیکر داعش تک اہل سنہ کے تکفیری رجحانات رکھنے والوں کی سرپرستی بھی کی۔
المناک مسئلہ یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک جو سعودی عرب کے اتحادی مانے جاتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ مملکت کے اتحادی رہیں اورد وسری جانب ایران کے ساتھ بھی انکی بنی رہے۔ وہ سعودی عرب سے اس بات کے متمنی ہیں کہ وہ اس حوالے سے چشم پوشی برتے ا ور اسے فریقین کے اتحادی بننے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض و شکوہ نہ ہو۔ یہ ممکن نہیں ۔ کئی مسلم ممالک اس امر کے منتظر ہیں کہ ایران زیادہ طاقتور ہے یا سعودی عرب ۔جو بھی ان میں سے زیادہ طاقتور ہونا ثابت کردیگا وہ اسی کے حلیف بن جائیں گے۔ کئی مسلم ممالک سعودی عرب کے ساتھ اتحاد کی بابت سنجیدہ ہیں۔ وہ ایران کے مخالف ہیں تاہم انکی سیاسی شہرت اور انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت خرا ب ہے۔ سعودی عرب کو اس قسم کے اتحادیوں کی منفی شہرت کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: