Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روپے کی گرتی ہوئی قیمت سے کیا فائدہ ہوگا؟

 کراچی (صلاح الدین حیدر)پاکستان کے سابق  وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کے پیش رو شوکت ترین کا مشترکہ خیال ہے کہ روپے کی قیمت گرنے سے ملک کو اسی وقت فائدہ پہنچ سکتاہے جب اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمران بین الاقوامی معاہدوں پر پوری طرح عمل کریں یا پھر ڈنڈے کے زور پر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی سنجیدگی سے کوشش کریں۔  اسحاق ڈارجو پچھلے کئی ماہ سے بیماری کے باعث رخصت پر ہیں کے دور میں اسٹیٹ بینک نے اپنی آنکھیں جان بوجھ کر کیوں بندکرلیں  جس سے نجی  بینکوںکو من مانی کرنے کا موقع ملا ۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ راتوں رات 5روپے نیچے گر گیا۔ ایک ارب سے زیادہ ملک کے قرضہ جات میں اضافہ ہوگیا ہوگا۔برآمدات بڑھنے کی کوئی خاص سہولت شاید  ہی ملے۔  شوکت ترین جو  ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں نے زور دے کر کہا کہ ملک کو اُسی وقت فائدہ ہوگا اگر بین الاقوامی معاہدوں پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں ’’ ڈنڈا چلا یا جائے‘‘  اور ایف بی آر کو لگام میں رکھا جائے کہ رشوت ستانی نہ ہو سکے ۔ انہیں خوشی تھی کہ روپے کو اصل قیمت پرلانے پر بین الاقوامی مالی ادارے ، جیسے کہ آئی ایم ایف سے لین دین آسان ہوجائے گا تاہم مہنگائی بہت بڑھ جائے گی اور عوام الناس چیخ اٹھیںگے۔ شوکت ترین جو ملک کے بڑے بینک کے سربراہ بھی رہ چکے ہیںجنہوں نے اپنی مدت ملازمت میں بینک کو 50کروڑ کا فائدہ پہنچایا تھا، صرف اس بات پر مستعفی ٰ ہوگئے کہ وہ کسی ایسے منصوبے کی   sovereign guarantee  یا عرف عام میں حکومتی پشت پناہی نہیں کریں گے جن منصوبوں پر قومی خزانے سے پیسہ لگانے کا مطلب10 سال تک اس کے فائدے کا انتظار کرنا پڑے ۔انہوں نے لوگوں کو یاد دلایا کہ  شنگھائی تنظیم نے ایک اصول طے کیا ہے جس کے تحت تمام ممالک اپنے ملک کے بینکوں میں دوسرے ملکوں کے باشندوں کی رکھی ہوئی رقم جس کے بارے میں عام خیال کیا جاتاہے کہ وہ بد عنوانی کے ذریعے کمائی گئی ہوکو ان شہریوں کے ملک کو اطلاع دینی پڑے گی کہ کتنا پیسہ کس ملک کے امراء کا ان کے پاس رکھا ہوا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہر ملک کو جس کو اس اصول سے فائدہ اٹھانا ہے علیحدہ علیحدہ ہر ملک جہاں پر عام طور پرلوٹی ہوئی دولت رکھی جاتی ہے، جیسے کہ متحدہ عرب امارات ،خاص طو ر پر دبئی، انگلینڈ ، امر یکہ، اور کئی ایک ممالک سے معاہدے کرنے پڑیں گے کہ جب پاکستانی حکومت ان سے رابطہ کرے تو وہ اسلام آباد کو تمام تر حقیقت سے پوری طرح آگاہ کریں کہ کس ملک کے پیسے کتنی لوٹی ہوئی دولت جمع ہے۔شوکت ترین نے یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ روپے کی گرتی ہوئی قیمت کا اصل مقصد دولت لوٹنے والوںکو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی دولت پاکستان واپس لائیں تاکہ قومی خزانے کی حالت جو فی الوقت آکسیجن ٹینٹ میں ہیں، سدھر سکے اور ہم  بیرونی قرضے واپس کرسکیں ۔ درآمدات کی اصل قیمت ادا کرنے کے قابل ہوں۔یہ اتنا آسان نہیں ہوگا، اس  لئے کہ ملک میں لائی جانے والی دولت پر 2فیصد انکم ٹیکس دے کر ساری دولت کو تحفظ مل جائے اگر کچھ لوگ اپنی دولت کا بیشتر حصہ باہر رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں  15  فیصد انکم ٹیکس حکومت پاکستان کو ادا کرنا پڑ ے گا۔ انڈونیشیاکی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں ایسے ہی ایمنسٹی اسکیم کے تحت  40بلین ڈالر ملک میں واپس آسکے جب کہ ایک بہت بڑا حصہ دوسرے ہی ملک میں پڑا  رہا۔ اب انڈونیشا کی حکومت اس پر 15فیصد انکم ٹیکس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں اسے دیکھنا پڑے گا۔شوکت ترین نے ایک اور بات پر زور دیا کہ شنگھائی تنظیم  معاہدے میں ایک شق ہے جس کے تحت کسی بھی ملک کا شہری اپنی شہریت بدل سکتاہے۔اگر پاکستانی خوفزدہ ہو کر کہیں ان پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ نہ چلے شاید اپنی اصل دولت جو  کہ باہر کے بینکوں میں رکھی ہوئی ہے کو  ظاہر نہ کریں اور دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرلیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان بے بس ہوجائے گا اور اسے سخت نقصان کا سامنا ہوگا لیکن وہ ایسے لوگوں کا کچھ کر نہیں پائے گا۔ ان کی دولت جن ممالک میں ہے اور جس کی شہریت وہ اختیار کریں گے وہ قانون کیاان کے مطابق ہوگا۔حکومت نے اعلان تو کیا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم جلد ہی نافذ کردی جائے گی لیکن وزیر اعظم کے مشیر خاص برائے خزانہ مفتاح  اسماعیل نے ابھی تک واشنگٹن سے اجتناب ہی کیا ہے۔ 

شیئر: