Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اسرائیل فیس بک کو لگام لگانے میں کامیاب ہوگیا؟

مامون کیوان ۔ الوطن
29برس قبل 12مارچ 1989ءکو انٹرنیٹ نے جنم لیا تھا۔شروع میں صرف ایک فیصد لوگ انٹرنیٹ استعمال کررہے تھے۔ اب دنیا کی50فیصد آبادی اس سے منسلک ہوچکی ہے۔ 2020ءتک دنیا کی دو تہائی آبادی انٹرنیٹ کی اسیر ہوگی۔
انٹرنیٹ کا جہاں اچھا استعمال ہوا وہیں ہیکرز نے مختلف آپریشن کرکے انٹرنیٹ کی تصویر کو بھی بگاڑا۔
حالیہ رپورٹوں سے پتہ چلا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والے 50ملین افراد کے کوائف متعلقہ کمپنی نے غلط طور پر استعمال کئے۔ فیس بک کے بانی نے یہ کہہ کر کہ ”غلطیاں ہوئی ہیں“ اسکا اعتراف بھی کرلیا۔ امریکہ کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے بھی انٹرنیٹ کے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال کی رپورٹیں منظرعام پر آئیں۔ اس حوالے سے کافی لے دے ہوئی۔
اسرائیل نے بھی انٹرنیٹ سے اپنے جارحانہ عزائم مختلف شکلوںمیں پورے کئے۔ ایک طرف تو جارحانہ پالیسی کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال کیا گیا تو دوسری جانب اسرائیلی رائے عامہ میں انتہا پسندانہ رجحانات کو ہوادی گئی۔اسرائیل نے نفرت پھیلانے کیلئے فیس بک کا جم کر استعمال کیا۔اکتوبر 2015 ءکے دوران فیس بک کے عہدیدار نے اسرائیل کا دورہ کرکے فیس بک پر اسرائیلی من مانی سے نمٹنے کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ا س بات کو پوری قوت سے مسترد کردیا تھا کہ فیس بک کو نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل ایسا ملک نہیں جو کسی کے آگے گھٹنے ٹیکے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے پے درپے قانون سازی کی۔ اسرائیلی وزیر داخلی سلامتی نے فیس بک کے خلاف مہم شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک کو دہشتگرد استعمال کررہے ہیں او راسکے بانی کے ہاتھ اسرائیلی شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ بانی زکر برگ خود یہودی ہیں۔ اسرائیل نے فیس بک کے حوالے سے ایک قانون یہ بنایا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی کرکے ایسی تمام سائٹس کو بند کراسکتا ہے جہاں اسرائیل کے خلاف ابلاغی مواد پیش کیاجارہا ہو۔انٹرنیٹ پر فرض ویب سائٹس بھی بند کی جاسکتی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے 21جولائی 2016ءکو ایک قانون منظور کرکے فیس بک کمپنی پر پابندی عائد کی کہ اسے اسرائیل کے خلاف اکسانے والے گروپ یا فرد کے اکاﺅنٹ کو 48گھنٹے کے اندر بند کرنا ہوگا۔ فیس بک ،ٹویٹر اور یوٹیوب پر کسی بھی تبصرے پر 78ہزار ڈالر جرمانہ بھی ہوگا۔ فیس بک انتظامیہ نے اس کے جواب میں واضح کیا کہ وہ اسرائیل سمیت دنیا کے متعدد سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کررہی ہے اور وہ دہشتگردی اور شدت پسندی پر اکسانے کے خلا ف ہے ۔ 23ستمبر 2016ءسے فیس بک انتظامیہ کی جانب سے متعدد فلسطینی ویب سائٹس، خبررساں اداروں اور عہدیداروں کے 300سے زیادہ اکاﺅنٹ بند کئے جاچکے ہیں۔ فیس بک نے جس طرح اسرائیلی دباﺅ قبول کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ فیس بک انتظامیہ بین الاقوامی دستاویزات کو پامال کررہی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل فیس بک کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: