Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک، ایمان کی دلیل

  ہمسایوں کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائیں،اس سے اللہ اور اس کے رسولکے احکامات پر عمل بھی ہوگا،آپ کو سرور اور شادمانی بھی ملے گی
 
 * * * عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض * * *
   مارچ 2018کی ایک صبح کو میں اپنی گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔میری عادت ہے کہ جب اکیلا ہوتا ہوں تو ریڈیو کا بٹن دبا دیتا ہوں۔ عربی میں اذا عۃ القرآن الکریم ریڈیو اسٹیشن کسی نعمت سے کم نہیں۔تلاوت قرآن کریم کے علاوہ یہاں آپ مختلف موضوعات پر علمائے کرام کی تقاریربھی سن سکتے ہیں۔ اس روز بھی میں نے اذا عۃ القرآن الکریم کا بٹن دبا دیا ۔ ریڈیو پر ہمسایوں کے حقوق پرعربی میں تقریر نشر ہو رہی تھی، بڑی عمدہ تقریر تھی۔ فاضل مقرر نے اتنے خوبصورت انداز میں ہمسایوں کے حقوق بیان کیے کہ میں عش عش کر اٹھا۔ اس موضوع پر اتنی خوبصورت تقریر میں نے بہت کم سنی ہو گی۔
     اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن و حدیث میں ہمسایوں کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولکی بڑی مشہور حدیث ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: جبریل ہمسایہ کے بارے میں مجھے وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔ (صحیح مسلم)
     بخاری شریف کی ایک حدیث ہے: اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ کہ ہمسایہ کی عزت و تکریم کرے۔
    اس طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسایہ کوایذا نہ دے۔
    اللہ کے رسولنے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی بے حد تلقین فرمائی ہے۔ میں تقریر سنتا جا رہا تھا اور اپنے آپ کو کوستا جا رہا تھا کہ عبدالمالک! ذرا غور و فکر کرو، کیا تم ہمسایوں کے حقوق ادا کرتے ہو؟ تم سال میں کتنی مرتبہ اپنے ہمسایوں کے گھر جاتے ہو یا کبھی تم نے ان کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ہے؟ میں تقریر سنتا چلا گیا۔ اس دوران میں نے فیصلہ کیا کہ میں اللہ نے چاہا تو عنقریب ہمسایوں کو اپنے گھر پر دعوت ضرور دوں گا۔
    قارئین کرام !اگر ہم غور کریں تو ہمیں اعتراف کرنا ہو گا کہ ہمارا اپنے ہمسایوں سے میل جول بہت کم ہے۔ اگر وہ ہمارے ہم زبان ہیں،ان کا تعلق پاکستان یا ہندوستان سے ہے اور وہ اردو زبان بولتے ہیں تو پھر آنا جانا ہے اور اگر وہ عربی یا کوئی دوسری زبان بولتے ہیں تو کم ۔ اس کا ایک سبب تو زبان کا فرق ہے مگر دوسرافرق ثقافت کابھی ہے ۔
    سعودی عرب میں ہمیں رہتے ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں مگر ہم میں سے اکثریت کو عربی زبان نہیں آتی۔کیا ایسا نہیں کہ ہم مسجد میں مدتوں سے ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ہم ہر روز ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے آگے بڑھ کر جرأت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ساتھ والے نمازی سے ہاتھ ملا لیا۔چلیے ہاتھ ملا لیتے ہیں مگر نام پوچھنا اور ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنا تو بہت ہی کم ہوتا ہے اور کسی ہمسائے کے گھر جانا ،وہاں اس کے ساتھ چائے پینا تو شاید ہی کبھی ہوتا ہو۔
    قارئین کرام!میری خوش قسمتی ہے کہ میں جس محلہ میں رہتا ہوں وہاں کے حالات بڑے عمدہ ہیں۔محلے کے لوگ آپس میں ملتے جلتے اورمسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
    میرے گھر کے بالکل قریب دو منٹ کے فاصلے پر جامع مسجد سلطان ہے۔ جس گھرانے نے یہ مسجد بنائی ہے، وہ بڑے ہی نفیس لوگ ہیں ۔ان کا تعلق سلطان فیملی سے ہے۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے اپنے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے نمازی سے کہا کہ ہمیں مسجد میں نماز ادا کرتے مدتیں گزر گئی ہیں۔ چلو تعارف کرتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ گویا وہ بھی اس انتظار میں ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں۔ہماری یہ مسجد بڑی خوبصورت ہے۔ مجھے اس محلہ میں رہتے ہوئے 15 سال گزر چکے ہیں۔ آج تک اس مسجد میں کسی نے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ ہمارے امام مسجد شیخ عبدالعزیز الاحیدب بڑے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ ذوق کے مالک ہیں۔ بڑے خوبصورت، سفید رنگ، میانہ قد،ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ جمائے رکھتے ہیں۔مسجد کے تمام نمازی ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔یہ اتنی خوبصورت تلاوت کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے یہ مزید تلاوت کریں تاہم وہ نماز بڑی مختصر پڑھاتے ہیں۔ ان کابڑا ہی نرم و نازک ہاتھ ہے، جب ہم ان کے پیچھے نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو نماز شروع کرنے سے پہلے وہ نمازیوں کی طرف منہ موڑ کر دیکھیں گے اور وہ اپنے پچھلے کھڑے نمازیوں سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملائیں گے۔
    اس روز میںگھرآیاتو خاصی دیر سوچتا رہا کہ مجھے اپنے ہمسایوں کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر دعوت دینی ہے۔ سب سے پہلے میں نے اللہ کا نام لے کر اپنے امام مسجد ابو عبداللہ شیخ سے بات کی۔ ان کو بتایا کہ میں صرف اللہ کی رضا کی خاطر آپ کو اپنے گھر بلوانا چاہتا ہوں۔ میرے نہ تو کوئی ذاتی مقاصد ہیں نہ شہرت نہ ریاکاری۔ بس اللہ کی محبت کی خاطر اور رسول اللہکی سنت سمجھتے ہوئے آپ کو دعوت دے رہا ہوں کہ آپنے ہمسایوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ کہنے لگے کہ کیوں تکلف کرتے ہو، میں پہلے کئی بار تمہارے گھر آ چکا ہوں۔ ہماری ملاقات تو مسجد میں ہو ہی جاتی ہے۔ دراصل وہ عین میرے گھر کے سامنے رہتے ہیں۔ محبت کا یہ عالم ہے کہ ایک دن مجھے بتانے لگے کہ میں لوگوں کو جب اپنا گھر بتاتا ہوں تو ان سے کہتا ہوں کہ میں عبدالمالک مجاہد کے گھر کے سامنے رہتا ہوں۔
    میں نے اصرار کیا اور کہا: اگر آپ میری دعوت قبول کریں گے تو پھر میں دیگر ہمسایوں کو بھی دعوت دوں گااور انہوں نے دعوت قبول کرلی۔
    قارئین کرام! اللہ کرے تمام ائمہ مساجدہمارے امام مسجد کی طرح اعلیٰ اخلاق کے حامل بن جائیں۔ ابو عبداللہ بڑے ہی ہر دلعزیز امام ہیں۔ دو3 ماہ  بعد تمام محلے داروں کو مغرب کی نماز کے بعد اکٹھا کرتے ہیں۔ اس روز مسجد کے تمام ہمسائے اپنے اپنے گھر سے عربی قہوہ ، چائے، کھجوریں کیک اور دیگر سنیکس وغیرہ لے کر آتے ہیںمگر یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی چیزیں لائے۔ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ عموماً قہوہ عرب ساتھی ہی لاتے ہیں۔ ہماری مسجد کی گیلری بڑی خوبصورت ہے ،وہاں سب محلہ دار بیٹھ جاتے ہیں ۔ امام صاحب نے واٹس ایپ پر محلہ داروں کا ایک گروپ بنا رکھا ہے۔ پروگرام سے ایک دو دن پہلے اطلاع مل جاتی ہے کہ ہم فلاں دن مسجد کے ہمسائے اکٹھے مسجد کی گیلری میں قہوہ پئیں گے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم گیلری میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرتے ہیں۔ تعارف کرتے کرواتے ہیں۔ کوئی خاص خبر یا اہم مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں چند منٹ گفتگو ہوتی ہے۔ ورنہ عموماً عمدہ انواع و اقسام کی کھجوریں اور سنیکس کھا کر امام صاحب کو دعائیں دیتے ہوئے اٹھ جاتے ہیں۔
    رمضان المبارک میں ہر سال محلہ داروںکی ایک مرتبہ اجتماعی افطاری ہوتی ہے۔ اس روز بھی ہر کوئی اپنی مرضی سے افطاری کے لیے چیزیں لے کر آتا ہے۔ رمضان کی یہ افطاری اہل محلہ کے لیے عید کے دن سے کم نہیں ہوتی۔ انواع و اقسام کی کھجوریں،قہوہ، سموسہ جات اور نجانے کیا کیا اشیاء ہوتی ہیں۔ خالص عربی ڈشیں جو گھروں میں بطور خاص عرب خواتین بناتی ہیں ،وہ بھی دستر خوان کی زینت ہوتی ہیں۔ میں بھی ہر سال فروٹ چاٹ اور دودھ ملا روح افزاء لے کر جاتا ہوں۔ اب تو لوگ اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ ان پاکستانی ڈشوں کو خوب انجوائے کرتے ہیں ۔ شروع شروع میں پوچھتے تھے: یہ کیا ہے؟ کیسے بناتے ہیں؟ روح افزا کا معنی کیا ہے؟دراصل فروٹ میں نمک مرچ ان کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔
    ہمارے امام صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے تو اس کا باقاعدہ اعلان کرتے ہیں۔ ہم اکٹھے مل کر تعزیت کرنے کے لیے جاتے ہیں ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس طرح ہمسایوں میں محبت پیار اور الفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مجھے اپنے محلہ کی اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے کم و بیش15 سال گزر چکے ہیں۔ آج تک مسجد کے نمازیوں میں کبھی اختلاف نہیں ہو ا نہ کبھی جھگڑا ہوا ہے۔ ہمارے امام صاحب کو جب ملیں وہ مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسولکے ایک صحابی سیدنا جریر بن عبداللہ البجلیؓ کہتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے جب بھی اللہ کے رسولسے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، آپ نے مجھے کبھی بھی ملاقات سے نہیں روکا۔ میں نے جب بھی اللہ کے رسولکے چہرہ اقدس کی طرف دیکھا ،آپ ہمیشہ مسکرا رہے ہوتے تھے۔
    مسلمان کا اخلاق یہ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ محبت اور پیار کرے۔ ان کی مشکلات کو دور کرنے میں پیش پیش ہو ۔ جب بھی دیکھے چہرے پر مسکراہٹ ہو۔ اس لیے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔
    مجھے یاد آیا ،کئی سال پرانی بات ہے ہمارے ایک سوڈانی ہمسائے ابو خالد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ امام صاحب نے اعلان کیاتو ہم سب محلہ دار ان کے گھر تیمار داری کے لیے گئے۔ ابو خالد کے بچوں نے ہمیں بڑی محبت سے خوش آمدید کہا۔ مل کر بیٹھے، چائے پی، غالباً امام صاحب کے مشورے پر ہم سب محلہ داروں نے باری باری ابو خالد کے گھر ضرورت کی چیزیں پہنچائیں ۔ ہر ایک نے اس سے کہا کہ میں فلاں فلاں کام کر سکتا ہوں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیں۔
     ایک دن ہمارے مسجد کے ایک نمازی کے والد کا ریاض سے باہر دوسرے شہر میں انتقال ہو گیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم دوسرے تیسرے روزاس کے گھر تعزیت کے لیے گئے ۔ صاحب خانہ سے کہنے لگے کہ ہم با جماعت شیخ عبدالمالک کی قیادت میں آئے ہیں۔وہ اتنا خوش ہوا، ہم نے اسے اور اس نے ہمیں ڈھیروں دعائیں دیں۔ وہ سعودی آج بھی مجھے ملتا ہے تو بڑی محبت اور پیار سے ملتا ہے ۔ اگر سچ پوچھیں تو ہمارے محلہ دار ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملتے اور سلوک کرتے ہیں گویا ہم ایک فیملی کے افراد ہیں۔
    میں ایک اور سعودی دوست کا تعارف کروا کر بات کو آگے بڑھاؤں گا، ان کا تعلق شمر قبیلے سے ہے اور ہم ان کو ابو سطام سے کنیت سے جانتے ہیں۔سعودی عرب کے شمال میں حائل کے رہنے والے ہیں۔ یہ نمازیوں کو عموما ہنساتے رہتے ہیں۔ میں انہیں مسجد کی ’’رونق‘‘ کہتا ہوں۔ کوئی نہ کوئی لطیفہ ‘ کوئی چٹکلہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ مسجد ہمارے لیے صرف عبادت کی جگہ نہیں‘ ہمسایوں کے ساتھ اعلیٰ سلوک کی جگہ بھی ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آپ سے پہلے مسجد میں داخل ہوا آپ بھی داخل ہو رہے ہیں تو وہ دروازہ پکڑ کر کھڑا ہو گیا کہ چلو تم پہلے گزرو، ہم لاکھ کہیں کہ پہلے تم گزر چکے ہو۔کوئی بات نہیں مگر اس کا اصرار ہوتا ہے کہ نہیں تم عمر میں بڑے ہو ‘ لہٰذا تم پہلے گزرو گے۔قارئین  ذرا غور کریں! کیا اس طرح آپس میں محبت اور پیار میں اضافہ نہیں ہوتا ؟!
    ایک اور خوبی میں اپنے امام ابو عبداللہ کی بیان کروں گا کہ وہ نماز بڑی ہلکی پڑھاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ8،10 منٹ میں فرض نماز سے ہم فارغ ہو جاتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ دور دور سے صرف اس لیے ان کے پیچھے نماز تراویح ادا کرنے کے لیے آتے ہیں کہ ایک تو ان کی قراء ت بہت اچھی ہے۔ دلوں میں اترنے والی آواز ‘ دوسرا نہایت آسان مختصر قیام‘ رکوع اور سجود کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہ سمجھیں کہ وہ نماز کو کھیل بنا دیتے ہیں۔ نہیں بلکہ ان کی نماز بڑی معتدل ہوتی ہے اور یہی اللہ کے رسولکی سنت ہے۔بلاشبہ اللہ کے رسولنے لمبی نمازیں بھی پڑھائیں ہیں مگر عموماً آپ کی نماز مختصر ہوتی تھی۔آپنے ایک مرتبہ نماز پڑھا کر فرمایاکہ میری خواہش تھی کہ میں نماز لمبی کروں مگر میں نے بچے کی رونے کی آواز سنی تو نماز مختصر کردی تاکہ بچے کی والدہ کو پریشانی نہ ہو۔
    حرمین شریفین میں سیکڑوں مرتبہ نماز پڑھنے کی سعادت ملی ہے۔بڑی مختصر نماز ہوتی ہے۔جیسے جیسے رش بڑھتا جاتا ہے قیام کو اور مختصر کردیا جاتا ہے۔امام ابو عبداللہ کو میں نے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا: ابو عبداللہ! اگر منگل کا دن دعوت کے لیے رکھ لیں تو کیسا ہے؟ جواب ملا کہ میرے لیے مناسب ہے۔ اب میں نے سوچا کہ کسے کسے دعوت دوں۔ میں نے اپنے گھر کے صحن میں گرین ہاؤس بنا رکھا ہے۔ بڑی احتیاط سے حساب لگایا کل 11 مہمان بیٹھ سکتے ہیں۔ میرے سمیت 12 کی جگہ ہے۔ میں نے گھر والوں کو فیصلہ سنایا کہ ہم کھانا باہر گرین ہاؤس میں کھائیں گے ۔ میرے گھر کے سامنے دائیں جانب ابو عبدالعزیز سلمان الزیاد کا گھر ہے، یہ بنو خالد یعنی سیدنا خالد بن ولید کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑے اونچے لمبے قد کے ابو عبدالعزیز بڑے اچھے ہمسائے ہیں۔ ان کے والد میرے ہم عمر ہیں مگر میری دوستی سلمان کے ساتھ ہے۔ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ہم دو3 ماہ بعد اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہماری باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ اس کے پاس کئی درجن اونٹ ہیں۔
     دو سال پہلے کی بات ہے، اس نے مجھے بتایا کہ ہمارا ایک اونٹ بڑا خوبصورت ہے۔ اس کی بہت زیادہ قیمت لگ چکی ہے۔ میرے اصرار پر بتانے لگا کہ ہمارے اس اونٹ کی آفر ہمسایہ ملک کے ایک امیر کی طرف سے ڈھائی ملین ریال آ چکی ہے۔ پہلے تو میں نے ماننے سے انکار کر دیا پھر اس نے مجھے سمجھایا کہ بے شمار لوگ اونٹوں کے چاہنے والے ہوتے ہیں۔ جس طرح انسانوں میں لوگ خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح جانوروں میں بھی بعض جانور غیر معمولی خوبصورت ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ اونٹ دور دور تک مشہور ہے۔ عصر کی نماز کے بعد دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔مجھے اس نے کتنی بار دعوت دی کہ میں اس کے ساتھ صحراء میں جاؤں اور کم از کم دو دن وہاں گزاروں۔ اس کا مزرعہ ریاض سے 3سو کلومیٹر دور ہے۔ یعنی 3سے 4 گھنٹے وہاں جانے میں لگ جائیں گے اور اتنا ہی وقت آنے میں لگ جائے گا۔ میرے لیے دو دن کا وقت نکالنا اتنا بھی آسان نہیں۔ بقول ابو عبدالعزیز کے صحراء میں سورج نکلنے کا منظر بڑا ہی خوبصورت ہے۔ کم از کم ایک رات صحراء میں گزارو، تم اسے ہمیشہ یاد رکھو گے۔ہر سال میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس سال ضرور صحراء میں رات گزاروں گا۔جب بارشیں ہوں گی،صحراء میں گھاس اگ آتی ہے۔وہ منظر بڑا بھلا ہوتا ہے۔رات کو آسمان پر چمکتے ستارے، چاندنی کا اپنا منظر اور ایسے میں اونٹنیوں کا تازہ دودھ اور کھجوریں۔قارئین اس کی لذت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔اس نے بڑے بڑے کاروان صحراء میں رکھے ہوئے ہیں،جہاں پر آپ رات کو بلا خوف سو سکتے ہیں۔
    دو سال پہلے ہمارے اس ہمسایہ کو نیا شوق چرایا اور اس نے بوسنیا میں زمین خرید کر وہاں اپنا گھر بنا لیا۔ گرمیوں میں وہاں کا موسم بڑا عمدہ ہوتا ہے۔ ریاض کے ایک معروف سعودی نے بوسنیا میں فائیو اسٹار ہوٹل بنایا ہے۔ ٹریول ایجنسی بھی قائم کر لی ہے۔ علاوہ ازیں وہ لوگوں کوگھر بھی بنوا کر دیتے ہیں۔ ابو عبدالعزیز کا اصرار تھا کہ میں بھی بوسنیا میں ایک گھر خریدوں۔ اب اسے کون سمجھائے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں بھی گرمیوں کا موسم بڑا سہانا ہوتا ہے۔ نانگا پربت کے پہاڑوں پر پورا سال برف جمی رہتی ہے۔ یہاں گرمیوں میں بھی پنکھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اپنے ملک کی سیاحت کا بھی اپنا مزاہے۔
    میرے ایک سعودی ہمسائے کا نام ابو عمر ہے۔اسے کتابوں کا بڑا شوق ہے۔مسجد میں ایک خوبصورت ریک میں یہ چھوٹی چھوٹی دعوتی کتابیں لا کر رکھتا ہے۔میں نے امام مسجد کی اجازت سے مسجد کے ایک کونے میں ٹیبل رکھی ہوئی ہے۔جس پر ضروری تفاسیر ہیں۔ عموماًجمعہ کے روز میں فجر کے بعد اشراق تک بیٹھتا ہوں۔اس دوران مطالعہ کرتا ہوں۔اب تو 10،12 افراد ہر جمعہ کو مسجد میں اشراق پڑھ کر نکلتے ہیں۔اللہ کے رسول کی صحیح حدیث ہے کہ جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر اپنی جگہ پر بیٹھا رہے،ذکر اذکار کرتا رہے،جب سورج نکل آئے تو اشراق کے دو نفل پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے تو اسے حج اور عمرہ کا پورا پورا ثواب ملتا ہے۔
    قارئین کرام!منگل کا دن میری لیے عید سے کم نہ تھا۔جس جس کو دعوت دی سب آگئے۔ہمارے ادارے کا ایک موظف بڑا اچھا باربی کیو بناتا ہے۔میں نے گھر میں چھوٹا سا تنور خرید لیا ہے۔ہمارا ایک ملازم اب روٹی پکانا سیکھ گیا ہے۔گرم گرم روٹی کے ساتھ اگر آپ کو تکے کباب مل جائیں تو اس کا اپنا مزا ہے۔محلہ داروں نے خوب مزے سے کھانا کھایا۔ہمسایوں کے حقوق کے حوالے سے باتیں ہوئیں۔ محبت اور پیار میں مزیداضافہ ہوا۔میں قارئین کو بھی دعوت دوں گا کہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائیں۔اس سے اللہ اور اس کے رسولکے احکامات پر عمل بھی ہوگا،آپ کو سرور اور شادمانی ملے گی۔
مزید پڑھیں: - - - -رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟

شیئر: