Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اہل مکہ کی قدیم روایتیں ، عادات اور رسم ورواج

حج کے موقع پر مرد  مشاعر کا رخ کرتے ہیں جبکہ خواتین بچوں کو لے کر حرم شریف پہنچ جاتی ہیں، عرفہ کے دن حرم خواتین سے بھر جاتاہے 
 
 
مکہ مکرمہ  ازل سے حرم محترم ہے۔ یہ وہ مقدس شہر ہے جہاں  پیغمبر اعظم و آخر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ یہ وہ محبوب شہر ہے  جہاں سے  حق و ہدایت کی روشنی  دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی۔  یہ وہ پیارا شہر ہے جسے قرآن کریم میں بکہ، مکہ، اُم القریٰ اور البلد الامین کے  ناموں سے یاد کیا گیا۔  
 
بعض علماء اسلام کا کہنا ہے کہ مقدس شہر کا نام مکہ اس وجہ سے پڑا کیونکہ یہاں پانی کم ہوتا ہے ۔ بعض کا کہنا ہے کہ مکہ نام اس لئے پڑا کیونکہ یہ گناہوں کو چلتا کر دیتا ہے یا اس لئے پڑا کیونکہ یہ  فاجر و فاسق کو باہر کردیتا ہے۔ مکہ مکرمہ  مقدس مقامات سے  مامور ہے۔  یہی  وہ  عظیم المرتبت شہر ہے جہاں  مسجد الحرام اور خانہ کعبہ  واقع ہیں۔ وہی خانہ کعبہ جس کا رخ کرکے دنیا بھر کے مسلمان  نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اسی میں  آب زمزم کا وہ کنواں ہے جس کا پانی غذا اور  شفاء ہے۔ یہیں  وہ مقام  ابراہیم ہے جس کی عظمت کا تذکرہ رب العالمین نے قرآن پاک میں کیا ہے۔ یہیں وہ صفا و مروہ ہیں جن کی سعی کی جاتی ہے اور جو  ماں کی ممتا کے تاریخی  کردار کو رب العالمین کی طرف سے  عظیم الشان خراج کی یاد دلاتی ہے۔  یہیں  شارع الملک کے کنارے  سوق اللیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا گھر ہے۔ یہیں  اُم  المومنین  خدیجہ بنت خویلد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا مکا ن ہے۔ یہ  زقاق  الصاغہ میں واقع ہے۔  یہیں  وہ دائرہ ارقم ہے  جہاں  اہل اسلام  تاریخ کے آغاز میں  خفیہ مرکز قائم کئے ہوئے تھے اور جہاں  عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔  اسی شہر میں  مسجد الجن ہے جو  جنات کے قبول اسلام کی یاد دلاتی ہے۔  یہیں المسفلہ میں  ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا  وہ مکان ہے جہاں آپ رہائش پذیر تھے۔  علاوہ ازیں  مسجد الخیف،  مسجد المشعر الحرام ، مسجد نمرہ،  غار حراء اور غار ثور ہیں۔ 
 
اس شہر سے  اہل اسلام کا  تعلق  نزول وحی کے زمانے سے چلا  آرہا ہے۔ اس شہر کے رسم و رواج فرزندان  و بنات اسلام کیلئے  بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ویسے بھی  ہر  معاشرے کی روایتیں ، عادتیں ، رواج و  رسمیں دنیا بھر کے  معاشروں  میں  اہمیت کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔  
 
رسمیں  مختلف مناسبتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ کچھ رسمیں شادی بیاہ کی ہوتی ہیں، کچھ رسمیں  بچوں کی پیدائش سے متعلق ہوتی ہیں۔  شادی کی رسمیں  رشتہ طے ہونے  سے پہلے سے شروع ہوتی ہیں اور  عقد نکاح کے بعد تک چلتی رہتی ہیں۔ 
 
 کچھ  رسمیں تہواروں  سے جڑی ہوئی ہیں جبکہ بعض رسمیں  مختلف  اوقات سے وابستہ ہیں۔  کھیلوں کی بھی رسمیں ہیں۔  لڑائی اور جنگ  کے بھی کچھ رواج ہیں۔  عید  اور  بقرعید  ملنے ملانے کے  آداب، پڑوسیوں ، رمضان المبارک اور  حج ایام  کی بھی رسمیں ہیں۔ 
 
حج سے متعلق  اہل مکہ کے رواج اور  ر سمیں
 
حج سے متعلق  اہل مکہ کے رواج اور  ر سمیں دنیا کے کسی بھی ملک یا شہر میں پائی جانے والی رسموں اور رواج سے مختلف ہیں۔  حج کے ایا م میں  مکہ مکرمہ کا ایک ایک محلہ ،ایک ایک سڑک  اور ایک ایک بازار انسانوں کے  ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔  مکہ مکرمہ  میں حج کے ایا م میں آپ جدھر بھی نظر ڈالیں گے آپ کو  بسیں ہی بسیں  اور گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آئیں گی۔ خصوصاً مسجد الحرام کے اطراف  کا علاقہ  بسوں اور  کاروں  سے بھرا  رہتا ہے۔  مقدس شہر کی سڑکوں پر  دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کے افراد  دیکھے جاسکتے ہیں۔  حج کا موسم  اہل مکہ کے یہاں  دینی کمائی اور دنیاوی  کمائی کا موسم ہوتا ہے۔  
مکہ  مکرمہ کی گھریلو خواتین حج موسم میں  ایک مٹھائی بڑے اہتمام سے تیار کرتی ہیں  جسے  " المعمول" کہا جاتاہے ۔اسے نقش و نگار  سے آراستہ کرتی ہیں۔ معمول مختلف  سائز کا بناتی ہیں۔  اس کے اندر کھجور  بھر دی جاتی ہے۔  بعض خواتین کھجور کے ساتھ تل کا بھی اضافہ کردیتی  ہیں۔ کئی خواتین  بادام بھرتی ہیں اور  اوپر سے باریک چینی  بھی چھڑک دیتی ہیں۔
 
حالیہ برسوں کے دوران مکہ مکرمہ میں  معمول کی تیاری گھروں میں کم ہونے لگی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جدید قسم کی بیکریاں  انواع و اقسام اور مختلف شکل و صورت والی معمول کی مٹھائیاں تیار کرنے لگی ہیں۔  
 
عصر حاضر میں اہل مکہ ایسے شخص کو جو حج پر نہیں جاتا (الخلیف)  کہتے ہیں۔ 
 
حج کے موقع پر اہل مکہ منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات کا رخ کرتے ہیں جبکہ خواتین اپنے بچوں کو لے کر حرم شریف پہنچ جاتی ہیں۔ عام طور پروقوف عرفہ کے روز مکی خواتین  حرم شریف میں لازماً حاضری دیتی ہیں۔
 
اہل مکہ  9 ذوالحجہ وقوف عرفہ  کے دن کو یوم الخلیف بھی کہتے ہیں۔  
  
 ذوالحجہ کو  ضیوف الرحمن حج کا آغاز مکہ مکرمہ سے منیٰ  روانگی سے کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ 9 ذوالحجہ   کو میدان عرفات  کا رخ کرتے ہیں۔  اس تناظر میں 9 ذوالحجہ کو حرم شریف کے دالان اور صحن مکہ اور جدہ کے  باشندوں خصوصاً خواتین او ربچوں سے معمور ہوجاتے ہیں۔  یہ لوگ  وہاں قرآن کریم کی تلاوت کرتے  ہیں اور  وقوف عرفہ کے روزے کا افطار بھی حرم شریف ہی میں کرتے ہیں۔ 
 
الخلیف کا رواج  اہل مکہ کے حوالے سے سالانہ رواج ہے۔  مکہ کے لوگ قدیم زمانے سے  اس کی پابندی کرتے چلے آرہے ہیں۔ مکہ کے مرد  حجاج کی خدمت کیلئے میدان عرفات میں ان کے ہمراہ ہوتے ہیں اور  مکہ  9 ذوالحجہ کو مردوں سے خالی ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے اہل و عیال کو  شہر ہی میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ غالباً اسی لئے اس کا نام الخلیف پڑ گیاہے۔
 
 حج کے دن  مکہ مکرمہ میں کسی مرد کا نظر آنا  اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ، ہر کس و ناکس یہ محسو س کرتا ہے کہ آج اس انسان کو ضیوف الرحمن کی خدمت کیلئے میدان میں ہونا چاہیئے تھا اور یہ اپنے فرض سے غافل ہوکر  شہر میں آرام کیلئے ٹھہرا ہوا ہے۔ دراصل  ماضی میں حجاج کی خدمت کا کام صرف اور صرف اہل مکہ ہی انجام دیا  کرتے تھے اس زمانے میں غیر ملکی کارکن ناپید تھے اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب تو  مختلف ممالک کے کارکن  حجاج کی خدمت پر مامور کردیئے جاتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل مکہ اب اپنے اس فرض سے غافل ہوگئے ہیں۔
 
یوم عرفہ 9ذوالحجہ کا ایک عجیب  رواج یہ بھی ہے کہ مکی خواتین  اس روز  بہت سارے ایسے کام ازخود انجام دیتی ہیں جو سال کے دیگر  ایام میں ان کے شوہر انجام دیتے رہتے ہیں۔  اسی وجہ سے  کئی خواتین زنانہ  ترک کرکے مردانہ  لباس زیب تن کرلیتی ہیں۔ یہ عید الاضحی کی مبارکباد  دینے اور لینے کیلئے شہر کے مختلف محلوں میں پھیل جاتی ہیں۔ 
 
وقوف عرفہ کے رواج میں سے ایک رواج یہ بھی ہے کہ مکہ کی خواتین  مختلف قسم کے مردانہ لباس پہنتی ہیں۔ بعض خواتین  جانوروں کے روپ دھار لیتی ہیں ۔ اس قسم کی خواتین کسی ایک جگہ جمع ہوکر  عید کا جشن بھی مناتی ہیں۔
 
مکی خواتین دن بھر شہر کے مختلف محلوں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ دن کے آخر میں کسی ایک گھر  یا کسی ایک جگہ جمع ہوکر  عید کے نغمے گاتی ہیں اور  مقامی رقص کا شوق بھی کرتی ہیں۔  ڈرامے کا سلسلہ بھی چلتا ہے اس میں  خواتین ہی پولیس اور جج و غیرہ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ 
 
وقوف عرفہ کا دن  سیر و تفریح کا دن بھی ہوتا ہے۔  خواتین اور بچے نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ تحائف خریدے جاتے ہیں۔ بچوں کو کھلونے دلائے جاتے ہیں۔ مکی خواتین ایک دوسرے کی خاطر معمول نامی مٹھائی پیش کرتی ہیں۔ اس کی  سند میں فنی مہارتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ 
 
مکہ مکرمہ کے لوگ عید الفطر کا جشن عید کی آمد سے کئی روز پہلے سے شروع کردیتے ہیں لیکن عید کا جشن نقطہ عروج کو اس وقت پہنچتا ہے جب  اہل مکہ مسجد الحرام سے عید کی نماز  پڑھ کر نکلتے ہیں۔ اس کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔  مرد  و خواتین اور بچے  حرم شریف سے پیدل اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ عام طور پر کاریں استعمال نہیں کرتے۔ بچوں خصوصاً بچیوں کے ملبوسات  بڑے خوش منظر ہوتے ہیں۔  بچوں کے سروں پر  رنگین  اور کڑھی ہوئی ٹوپیاں  بہت اچھی لگتی ہیں۔   
 
جہاں تک عید الاضحی کا تعلق ہے تو اس موقع پر  بچے  میدانوں میں   خوبصورت  فن پاروں کی شکل میں  جمع ہوجاتے  ہیں۔ 
اہل مکہ سب سے پہلے  خاندان کے بزرگوں سے  عید ملنے جاتے ہیں۔  والدین ، چچا اور ماموں  سرفہرست رہتے ہیں۔ ایسا ہر رشتہ دار جو معمر ہوتا ہے اس سے عید ملن کا اہتمام دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کے مقابلے میں پہلی فرصت میں کیا جاتا ہے۔  یہ رواج اہل مکہ میں بزرگوں کی قدرو منزلت کی نمایاں  تاریخی علامت ہے۔  
 
اہل مکہ یہ اہتمام اس لئے بھی کرتے ہیں کہ خاندان کے بزرگ  غمی و خوشی میں برابر  حصہ لیتے ہیں۔ بحرانوں کے وقت مداخلت کرکے  مسائل حل کراتے ہیں۔  مشکل اوقات میں  تعاون کرتے ہیں۔  کبھی بھی چھوٹوں کو  مسائل سے نمٹنے کیلئے تنہا نہیں چھوڑتے۔ 
اہل مکہ کے یہاں ایک رواج یہ بھی ہے کہ ایک محلے کے لوگ دوسرے محلے کے لوگوں سے  عید ملنے کیلئے جاتے ہیں۔ گھر والے عید ملن کیلئے دن تقسیم  کرلیتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ گھر پر عید ملنے آئیں اور گھر کو خالی پائیں۔ 
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ  عید کے پانچ دنوں کے دوران  تمام رشتہ داروں اور احباب سے عید ملن کی رسم احسن شکل میں انجام پا جاتی ہے۔ 
 
گورنر مکہ مکرمہ ، عید کے روز صبح کے وقت  شہریوں کو اپنے یہاں  گھر پر عید ملن کیلئے خوش آمدید کہتا ہے۔  عید ملن کے لئے آنے والے  گورنر کے دسترخوان پر ناشتہ کرتے ہیں۔ عید کے پہلے  روز رات کے وقت  پبلک پارکوں میں عید ملن کا عظیم الشان جشن منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کی سرپرستی  گورنر کی طرف سے کی جاتی ہے۔  جشن میں  عوامی  فنون کے طائفے  اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  ان میں  (مزمار)  (الخبیتی) (السمسمیہ) کا اہتمام کیا جاتاہے۔  بامقصد  تھیٹر لگتے ہیں۔ خیرقدمی  شعر پڑھے جاتے ہیں۔ تقریب کا  اختتام تلواروں کے معروف روایتی رقص پر ہوتا ہے۔  جشن کی تقریبات مسلسل تین روز تک چلتی رہتی ہیں۔ 
 
 عید کے پہلے دن کا ناشتہ  (الشریک)  اور (الفتوت)   سے کیا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ سمیت حجاج کے اکثر گھرانوں میں  عید کے دوران  الشریک اور الفتوت  بھاری مقدار میں  رکھا جاتا ہے۔  سفید پنیر ،  طحینہ اور سرخ ہریسہ  کے ساتھ ناشتے میں  پیش کئے جاتے ہیں۔  عید کی رات  یہ  اشیاء  بازاروں میں بہت  زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ انہیں اہل حجاز(النواشف)  کے نام سے یاد کرتے ہیں۔  قدیم زمانے میں  ان اشیاء کو  (التعتیمہ)  کہا جاتا تھا۔ ماضی میں یہ اشیاء  عشاء بعد کھائی جاتی تھیں۔  
 
محلوں خصوصاً پرانے محلوں میں  دیسی دکانیں  لگائی جاتی ہیں۔  عید کی مٹھائی، پھول، بلیلہ، ترمس، فول، لوبیا، قمردین اور  بچوں کے بعض کھلونے  ان دکانوں پر  فروخت ہوتے ہیں۔ 
اہل مکہ عید کے موقع پر گردو غبار  جھاڑنے کیلئے  ماہر  کارکنان کی خدمات حاصل کرتے ہیں جبکہ  روشندانوں کو گرم پانی سے دھونے کا رواج ہے۔  جہاں تک گھروں کے فرنیچر کا تعلق ہے تو یہ ہر گھر میں حسب حیثیت  مختلف رہتا تھا ۔  خوشحال لوگ  ایک یا دو کمروں میں  لکڑی کی مجلس  رکھا کرتے ۔ گاؤ تکیے لگائے جاتے ہیں۔  اچھے کپڑے کے  پردے لٹکائے جاتے ۔  ان سب چیزوں کے مقامی نام ہوتے تھے۔  ایک  نشست سے دوسری نشست کو نمایاں کرنے کیلئے  تکیے رکھے جاتے تھے۔  دیوار کی طرف  ٹیک لگانے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ 
 
جہاں تک عمائدین اور مالدار شہریوں کا تعلق ہے  تو وہ اپنے گھروں میں  ایرانی قالین بچھایا کرتے  تھے۔  اوسط درجے کے زیادہ تر لوگ  پتھر کا فرش  بچھاتے تھے جبکہ غریب گھرانوں میں سرخ ، سیاہ اور نیلی دریاں بچھائی جاتی تھیں جو یا تو ہندوستان سے درآمد کی جاتیں یا  سراہ الحجاز یا بیشہ  یا طائف میں تیار کئے جانے والے فرش  استعمال کرتے تھے۔  یہ فرش  بدو خواتین تیار کیا کرتی تھیں۔ 
 
ماضی میں عید الفطر کے موقع پر بچوں کی رسمیں
 
 چاند رات کو  رویت کا اعلان توپ داغ کر کیا جاتا۔ اس موقع پر بچے  بڑے موثر نغمے گایا کرتے ۔ دعائیہ کلمات بھی شامل کرتے ۔ بچے دعائیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی نعمت سے ہمیں نوازتے رہنا۔  مکہ کے مضافاتی شہر جدہ  میں  تین محلوں میں عید کا جشن منایا جاتا تھا یہ  حارہ الیمن ، حارہ مظلوم اور حارہ شام  ہیں۔ 
 
مکہ مکرمہ  سمیت  حجاز کے  مختلف شہروں میں  کئی مقامی کھیل رائج رہے۔ ان میں  المدوان یا  المزویقہ  کا نام سرفہرست آتا ہے۔ یہ بچوں کا پرانا کھیل ہے۔  مخروطی شکل کا لکڑی کا ایک ٹکڑا ، زیتون کے درخت یا  افریقی پھل  الدوم سے تیار کیا جاتا ۔  اسے مختلف شکلیں دے کر رنگا جاتا ۔ اس کے ایک کنارے  چھوٹی کیل  لگائی جاتی۔  جس پر  المدوان گھومتا اور  سریع  گردش کے دوران زمین کو چھوتا۔ اسے  تیزی سے  پھینکا جاتا  جس سے وہ  دھاگے سے نکل جاتا اور  اسے جتنی قوت سے پھینکا جاتا  اتنی ہی  قوت سے وہ گھومتا رہتا تھا۔  اسے برصغیر میں لٹو کا نام دیا جاتا ہے۔
 
ایک معمر شہر  اس کھیل کے ضوابط  سے متعلق اپنی بھولی بسری یادیں دہراتے ہوئے بتاتا ہے کہ وہ یہ کھیل اپنے بچپن میں اپنی گلی کے لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔  اس کا کہنا تھا کہ  ہم لوگ زمین پر  ایک دائرہ  بنا لیتے ۔ دو  کھلاڑی بچے  اپنے اپنے مدوان پھینکتے ۔ وہ دونوں  گھومتے گھومتے ایک  دوسرے سے ٹکرا جاتے۔ کامیاب کھلاڑی  وہی مانا جاتا جو اپنے مدوان سے دوسرے کے مدوان کو  دائرے سے نکال دیتا۔  
 
تجریدی آرٹ کی فنکارہ  صفیہ بن زقر بتاتی ہیں کہ  گزشتہ برسوں کے دوران المدوان کھیل  مکہ کے باشندو ںکی زندگی سے اوجھل ہوگیا تھا لیکن اب کچھ جدت کے بعد دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ 
 
الکبوش : پرانا مشہور کھیل
 
مکہ کے قدیم پرانے کھیلو ں میں ایک  کھیل اللب کے نام سے مشہور ہے ۔ تجریدی آرٹ کی فنکارہ صفیہ بن زقر  بتاتی ہیں کہ یہ  کھیل بچے گھروں کے اندر یا باہر  کھیلا کرتے تھے۔  اس کیلئے وہ شفاف بوتلیں استعمال کیا کرتے۔  انہیں  (البرجوہ)  اور (البلی)     کہا کرتے تھے۔  یہ  چھوٹے یا قدرے بڑے لیموں کے سائز کا  ایک پتھر ہوتا ۔ اسی طرح الکبوش  یا الکعابہ  بھی تھا ۔ یہ بہت زیادہ پرانے کھیلوں میں سے ہے۔ غالباً  یہ زمانہ جاہلیت میں بھی کھیلا جاتا تھا کیونکہ اس کا تذکرہ ابو نواس کی شاعری میں ملتا ہے۔  اس کھیل کا نام اہل مکہ کی کہاوتوں تک میں شامل تھا۔  یہ ایک چھوٹی سی ہڈی ہوتی ۔ اس کا سائز تقریباً 2 سینٹی میٹر کا ہوتا۔ یہ  بکریوں کے جوڑ  کی ہوا کرتی تھی۔ جب بکری ذبح کی  جاتی تو بچے اس کے کھروں سے  الکبوش نکال لیا کرتے تھے اور اس پرسے گوشت یا چربی صاف کردیتے تھے۔  پھر اسے پتھر پر رگڑ کر  چمکا لیتے تھے اور ریت والی جگہ  اس سے کھیلا کرتے تھے۔  ایک دنبے کو دوسرے دنبے کے برابر میں رکھتے ۔ دنبوں کی  تعداد 20 تا 30 پہنچ جاتی۔ سارے دنبے  سیدھی لائن میں صف بستہ کرکے کھڑے کردیئے جاتے۔ اس کے بعد  اس لائن کے اطراف  مٹی کا دائرہ کھینچ دیا جاتا۔  دو یا تین  یا زیادہ کھلاڑی کھیلتے۔ دائرے سے تین چار میٹر تک دور چلے جاتے۔ ان میں سے ہر ایک  اپنے ہاتھ میں  صاف ستھرا بھاری  دنبہ پکڑے رہتا۔  پھر جو  کامیاب ہوتا وہ  کبوش  کی لائن کا نشانہ لیتا ۔ اگر  اس کی ضرب سے دنبہ دائرے سے نکل جاتا تو دنبہ  اس کا  ہوجاتا اور وہ  خوشی سے چیخنے چلانے لگتا کہ میں  نے دنبہ جیت لیا۔  اسی طرح کھیل کا سلسلہ  چلتا رہتا تھا۔  اب یہ کھیل ناپید ہوگیا ہے۔ 
 
الکبت کھیل
 
بچوں کے کھیلوں میں الکبت بھی ہے۔ یہ  ایک طرح سے پرتشدد کھیل ہے۔ اسے عام طور پر گلی کے طاقتور نوجوان کھیلتے ہیں۔  اس میں کھلاڑی تیز قدموں سے  آگے بڑھتا ہے اور  فریق مخالف کو ہرانے کیلئے فنی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ حملہ آور کو مقابل ٹیم کے کے کسی فرد کو چھونے نہیں دیتا۔ اس کھیل میں کئی لوگ شریک ہوتے ہیں۔ دو گروپوں میں ہوتے  ہیں ۔ دونوں دس میٹر کے فاصلے پر ایک  دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں۔  کھیل کے میدان میں  چکر لگاتے ہیں۔  دونوں گروپوں میں سے کوئی ایک شخص دوسرے فریق کی طرف جاتا ہے اور  اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتا ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے  (شید البید البید) کہتا  رہتا ہے۔ اگر  وہ کسی کو چھو کر  بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور  کوئی اسے پکڑ نہیں پاتا تو یہ اس کی جیت ہوتی ہے اور اگر پکڑ لیا جاتا ہے تو آؤٹ ہوجاتا ہے اور اس کی ٹیم ہار جاتی ہے۔  اسے آپ برصغیر کے معروف دیہی کھیل کبڈی سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ 
 
البربرکھیل
 
البربر قدیم  دیہی کھیل ہے۔ اس کے کئی نام ہیں۔ ان میں  (اُم خطوط)،  (عظیم) یا (الخطہ) یا (العتبہ)  یا(الاولیٰ)  کہا جاتا ہے۔ مغربی ریجن میں اس کا نام البربر ہے۔  یہ کھیل  دائیں پیر سے کھیلا جاتا ہے۔  زمین میں مٹی کی گول چھوٹی سی ٹھیکری  کو  ر کھ  دیا جاتا ہے۔  مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے  سوراخ بنا  دیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھلاڑی  مٹی کی ٹھیکری کو   اپنے دائیں پیر سے کسی ایک سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔   اس موقع پر  وہ اپنا  بایاں پاؤں  اوپر  اٹھالیتا ہے۔  اس میں   دو یا تین کھلاڑی ہوتے  ہیں۔  
 
پتھر کا کھیل
السقیطہ یا الزقیطہ یا اللقفہ پتھر کے کھیل کے کئی نام ہیں۔ اس میں چکنے پتھر کی 5  کنکریاں  استعمال کی جاتی ہیں۔ بعض شہروں میں اسے  الکمش یا اللقصہ یا الصقلہ  کہا جاتاہے۔ یہ کھیل  دو افراد کھیلتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس  پانچ، پانچ  کنکریاں ہوتی ہیں۔  پہلا کھلاڑی  کھیل کا آغاز  بائیں ہاتھ کی انگلی سے  زمین پر 8 کی شکل بنا کر کرتا ہے۔  اس کا کنکر اس کے سامنے ہوتاہے جسے وہ اپنے  دائیں ہاتھ سے پکڑ کر  ہوا میں اچھالتا ہے اور  اسی ہاتھ سے  تیزی سے اسے اچک لیتا ہے اور پھر اسے  اس برج میں داخل کردیتا ہے جسے وہ اپنے بائیں ہاتھ سے بناچکا ہوتا ہے۔ باقی چاروں پتھر بھی اسی طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ اس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ کھیل کے 
دوران کوئی بھی پتھر زمین پر نہ گرنے پائے وگرنہ اسے کھیل سے آؤٹ کردیا جاتا ہے۔  اس کے بعد دوسرا کھلاڑی اسی انداز سے کھیلتا ہے  جس کا کنکر کھیل کے دوران گر جائے یا  کنکر کو  برج کے اندر داخل کرنے میںناکام ہوجائے تو وہ کھلاڑی  مقابلہ ہار جاتا ہے۔
 

شیئر: