Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرقانونی شکار یا بطور خوراک استعمال، پنجاب سے چڑیا کیوں روٹھ گئی؟

پاکستان میں چڑیوں کی تعداد محدود ہونے کو کئی برسوں سے محسوس کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے سندھ اور پنجاب میں کافی کام بھی ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: ہاؤس سپیرو)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں منگل کو کراچی سے اوکاڑہ آنے والی مسافر بس کی تلاشی کے دوران محکمہ جنگلی حیات پنجاب نے سات ہزار سے زائد مردہ جنگلی پرندے برآمد کیے ہیں۔ ان میں بطخوں اور تیتروں کے علاوہ ساڑھے چار ہزار کے قریب چڑیاں بھی تھیں۔
وائلڈ لائف حکام کے مطابق یہ کارروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی۔ چیک پوسٹ لگا کر بس روکی گئی اور مردہ پرندے برآمد کیے گئے۔
یہ صرف سمگلنگ کا ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ پنجاب میں چڑیوں کے گوشت کا بڑھتا ہوا استعمال، ریسٹورنٹس میں اِن کی طلب میں اضافہ اور ’نیکی‘ کے نام پر سڑک کے کنارے پنجروں میں چڑیاں بیچنے والے، یہ سب مل کر ایک ایسی سپلائی چین بنا چکے ہیں جس کا نتیجہ شہروں اور دیہات میں چڑیوں کی تعداد کم ہونے کی صورت میں نکل رہا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی ایک تفصیلی رپورٹ میں اسی ’خوراک کے طور پر مانگ‘ کو چڑیا کی کمی کی بڑی وجوہات میں شامل کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بعض شہروں میں اسے ’ایگزاٹک ڈِش‘ سمجھا جاتا ہے۔

چڑیوں کا کم ہونا کس بات کی علامت ہے؟

گھروں، دکانوں، گلیوں اور چھتوں کے آس پاس نظر آنے والی عام چڑیا دراصل ’ہاؤس سپیرو‘ ہے۔ دنیا بھر میں یہ انسان کے ساتھ بسنے والا پرندہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں انسانی آبادیاں ہیں وہاں یہ دانہ، کیڑے اور چھوٹے لاروے ڈھونڈ کر گزارا کر لیتی ہے اور عمارتوں کے شگافوں، چھجوں، شٹر کے خلا یا درختوں میں گھونسلہ بناتی ہے۔ اسی لیے ماہرین اسے محض ’پرندہ‘ نہیں بلکہ شہری ماحول کی کیفیت کا اشارہ بھی سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں چڑیوں کی تعداد محدود ہونے کو کئی برسوں سے محسوس کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے سندھ اور پنجاب میں کافی کام بھی ہوا ہے۔ کراچی میں ’چڑیا گنتی‘ مہم بھی شروع کی گئی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کہتے ہیں کہ ’چڑیوں کی موجودگی اچھے ماحول کی علامت ہے اور اگر وہ کسی جگہ سے چلی جائیں تو مطلب یہ ہے کہ وہاں کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ پاکستان کے کئی بڑے سے شہروں سے اب چڑیاں جا رہی ہیں۔ اور اگر چڑیا کسی علاقے کو چھوڑ دے تو یہ ماحول کے غیرصحت مند ہونے کی نشانی ہے۔‘
اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ نسل ابھی ’معدومیت کے قریب‘ والی فہرست میں نہیں۔ برڈ لائف کے مطابق ہاؤس سپیرو کی عالمی درجہ بندی ’لیسٹ کنسرن‘ ہے یعنی دنیا بھر میں مجموعی طور پر اسے فوری معدومیت کا خطرہ نہیں مانا جاتا۔ البتہ کئی ملکوں اور شہروں میں اس کی تعداد کم ہونے کی رپورٹس موجود ہیں۔

گوجرانوالہ چڑے کے باربی کیو کے لیے مشہور ہے۔ (فائل فوٹو: یوٹیوب)

چڑیوں کی گنتی اور پنجاب کے کھانے

پاکستان میں ایک مدت تک چڑیوں کی کمی کی بات تو ہوتی رہی مگر باقاعدہ بنیاد (یعنی بیس لائن) موجود نہیں تھی۔ اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے سندھ وائلڈ لائف نے مارچ 2024 میں کراچی میں باقاعدہ سروے کرایا۔ اس سروے میں 121 فوٹوگرافرز اور وائلڈ لائف شوقین شامل تھے۔ شہر کے پانچ فیصد علاقے کو کور کیا گیا اور 9035 ہاؤساسپیرو ریکارڈ کی گئیں۔ 
ماہرین کے مطابق چڑیوں کے کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں اور اکثر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق تیز شہری پھیلاؤ اور درختوں/مقامی پودوں کی کٹائی چڑیوں کے لیے چھپنے، بیٹھنے اور گھونسلہ بنانے کی جگہیں کم کرتی ہے، اور ساتھ ہی وہ بیج اور کیڑے بھی کم ہوتے ہیں جن پر چڑیوں کے بچے پلتے ہیں۔ جبکہ آلودگی سے خوراک اور پانی کے ذرائع متاثر ہونا بھی کمی کی وجوہات ہیں۔
اس کمی کی عمومی تصویر کو پنجاب کے مقامی مطالعے بھی اپنے اپنے انداز میں سپورٹ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چنیوٹ ریجن پر دسمبر 2024 کی ایک تحقیق میں نتیجہ یہ بتایا گیا کہ شہری علاقوں میں ہاؤس سپیرو کی تعداد دیہی علاقوں کے مقابلے میں کم پائی گئی ہے اور بڑی وجوہات میں رہائش گاہ کا ختم ہونا، آلودگی اور خوراک کے وسائل کا کم ہونا شامل ہیں۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں چڑیوں کو ’خوراک‘ کے طور پر پیش کرنے یا بیچنے کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ گذشتہ برس پنجاب بھر میں کریک ڈاؤن کے دوران ڈسکہ کے ایک ہوٹل پر چھاپہ مارا گیا جو سوشل میڈیا کے ذریعے چڑیوں کا گوشت آفر کر رہا تھا اور اس کیس میں ہوٹل مالک پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

گوجرانوالہ جو کہ چڑے کے باربی کیو کے لیے مشہور ہے، وہاں کے ریسٹورنٹ مالکان نے حکومتی پابندی سے بچنے کے لیے چڑوں کی فارمنگ شروع کر دی ہے۔ جبکہ وہاں بریڈنگ اور گوشت کی سپلائی ایک الگ سے کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
پنجاب میں جنگلی پرندوں کے غیرقانونی شکار، پکڑ، نقل و حمل اور تجارت سے متعلق بنیادی فریم ورک ’وائلڈ لائف ایکٹ 1974‘ اور اس میں بعد کی ترامیم ہیں۔ قانون میں وائلڈ لائف افسران کو ضبطگی، جال،پھندے وغیرہ قبضے میں لینے اور کارروائی کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔ اسی قانون کے تحت خلاف ورزی پر سزاؤں (قید، جرمانہ) کا اصولی ڈھانچہ موجود ہے جبکہ حالیہ برسوں میں پنجاب حکومت کی سطح پر سزاؤں اور جرمانوں کو سخت کرنے کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے اور قانون کا مسودہ اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں فریم ورک ’سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972‘ ہے جس میں شکار، پکڑ اور مخصوص طریقوں کی ممانعت اور سزا کا اصولی ذکر موجود ہے۔ تاہم زیادہ سے زیادہ سزا سامان کی ضبطگی اور جرمانہ کیا جاتا ہے۔

 

شیئر: