Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میڈیکل کا شعبہ اب ایک صنعت مگر ہزاروں ڈاکٹر ’ٹیکس چوری میں ملوث‘ کیوں؟

پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ میڈیکل کا شعبہ بھی نجی سطح پر ایک بڑی صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے (فائل فوٹو: فری پِک)
پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا رش روز بروز بڑھ رہا ہے اور شہریوں کی جانب سے معیاری طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی شکایات عام ہیں، جس کے باعث بڑی تعداد میں لوگ علاج کے لیے نجی طبی مراکز کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
چاہے آپ ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں، نجی کلینکس اور بڑے نجی ہسپتال جابجا قائم ہیں، جہاں علاج کے لیے بھاری فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ میڈیکل کا شعبہ بھی نجی سطح پر ایک بڑی صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
یہ شعبہ شہریوں سے علاج معالجے اور کمپنیوں سے اُن کے ملازمین کے طبی اخراجات کی مد میں سالانہ اربوں روپے وصول کرتا ہے۔
تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا میڈیکل کا یہ شعبہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کو اتنا ٹیکس بھی ادا کر رہا ہے؟
اس بات کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے، کیونکہ ایف بی آر کے مطابق ملک میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ڈاکٹرز میں سے صرف 56 ہزار نے اپنے انکم ٹیکس ریٹرنز فائل کیے ہیں، جبکہ 73 ہزار سے زائد ڈاکٹرز نے ریٹرنز جمع ہی نہیں کروائے۔
’رواں سال 56 ہزار ڈاکٹروں میں سے 31 ہزار سے زائد نے اپنی آمدن صفر ظاہر کی، 360 ڈاکٹروں نے نقصان ظاہر کیا جبکہ 24 ہزار 137 ڈاکٹروں نے اپنے کاروبار کی آمدنی ظاہر کی۔‘
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ متعدد ڈاکٹرز نے اپنی نجی پریکٹس سے صفر آمدنی یا نقصان ظاہر کیا ہے، حالانکہ ان کے کلینکس میں مریضوں کا خاصا رش ہوتا ہے۔
ادارے کا موقف ہے کہ ان ڈاکٹروں کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور یہ اپنی آمدنی چُھپا رہے ہیں، اس لیے انہیں آڈٹ اور انکم ٹیکس قوانین کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں ایف بی آر نے حالیہ دنوں میں ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے جو اپنی آمدنی ظاہر نہیں کرتے یا کم ظاہر کرتے ہیں۔ 
چنانچہ ٹیکس وصول کرنے والے ادارے نے ڈاکٹرز، نجی کلینکس اور ہسپتالوں میں ٹیکس چوری کی تحقیقات تیز کرتے ہوئے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

ایف بی آر نے ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے جو آمدن ظاہر نہیں کرتے یا کم ظاہر کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تو ایف بی آر کے اعدادوشمار ہیں، لیکن اس حوالے سے تصویر کا دوسرا پہلو جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا ڈاکٹرز یا اُن کی نمائندہ تنظیمیں اِن اعدادوشمار اور اس بیانیے سے اتفاق کرتی ہیں یا نہیں؟
اردو نیوز نے اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، جو ملک میں ڈاکٹرز کی ایک قومی نمائندہ تنظیم ہے، کے نمائندے سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس معاملے پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین انٹرنیشنل ریلیشنز، سینیئر ڈاکٹر محمد اشرف نظامی نے ایف بی آر کے اعدادوشمار کو غلط قرار دیتے ہوئے اس بیانیے کی مذمت کی کہ ’ڈاکٹرز ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہیے کہ ایف بی آر کی جانب سے مختلف میڈیا رپورٹس میں جو اعدادوشمار سامنے لائے گئے ہیں، کیا واقعی اتنے ڈاکٹرز ملک میں رجسٹرڈ ہیں بھی یا نہیں؟‘
’ایف بی آر کے یہ اعدادوشمار حقائق پر مبنی نہیں اور ادارے کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) سے تصدیق کرتا کہ ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی اصل تعداد کتنی ہے۔‘

پی ایم ڈی سی کے مطابق ’پاکستان میں رجسٹرڈ پریکٹیشنرز کی تعداد 3 لاکھ 83 ہزار 822 ہے‘ (فائل فوٹو: پی ایم ڈی سی)

ڈاکٹر اشرف نظامی نے واضح کیا کہ ’پاکستان میں ڈاکٹرز کی اکثریت سرکاری ملازم ہے، اور سرکاری ملازمین چاہیں یا نہ چاہیں، اُن کی آمدنی ظاہر ہو ہی جاتی ہے اور ماہانہ بنیادوں پر اُن سے ٹیکس کٹوتی کی جاتی ہے۔‘
’سب سے پہلے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سرکاری ڈاکٹرز کی تعداد کتنی ہے، اس کے بعد نجی شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کتنے ہیں، اور پھر کتنے پاکستانی ڈاکٹرز بیرونِ ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی درست اعدادوشمار سامنے آسکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کے مبہم اور ادھورے اعدادوشمار پیش کرنا پاکستان کے سرکاری اداروں کا پرانا وتیرہ ہے، جو اکثر اس نوعیت کی الزام تراشی کا سبب بنتا ہے۔‘
ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ ’میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ پاکستان میں طبی شعبے میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، لیکن اس بنیاد پر پورے شعبے کو بدنام کرنا دُرست نہیں۔ ملک کے کئی علاقوں اور محلوں میں ڈاکٹرز آج بھی معمولی فیس لے کر عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے ایف بی آر کو مشورہ دیا کہ ’وہ دیگر شعبوں، خصوصاً بڑے ریٹیلرز اور ان عناصر پر توجہ دے جو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں اور بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کر رہے ہیں، بجائے اِس کے کہ ایک پورے پیشے کو نشانہ بنایا جائے۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹرز جب آن لائن یا ڈیجیٹل ذرائع سے لین دین کریں گے تو ریکارڈ خود بخود نظام میں آجائے گا‘ (فائل فوٹو: اَن سپلیش)

’پاکستان میں قریباً 70 فیصد علاج معالجے کی سہولتیں نجی میڈیکل شعبہ فراہم کر رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے نظام کو بہتر بنائے، نہ کہ تمام ڈاکٹروں پر یکطرفہ الزامات عائد کرے، جو افسوس ناک طرزِ عمل ہے۔‘
اب ذرا یہ جان لیتے ہیں کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں اور پاکستان میں کتنے میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹیشنرز رجسٹرڈ ہیں؟
اردو نیوز کو دستیاب پی ایم ڈی سی کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل رجسٹرڈ پریکٹیشنرز کی تعداد 3 لاکھ 83 ہزار 822 ہے جن میں سے 43 ہزار 546 ڈینٹل پریکٹیشنرز ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پریکٹیشنرز کی زیادہ تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔
اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’ملک میں مجموعی میڈیکل پریکٹیشنرز میں مرد 1 لاکھ 68 ہزار 651 اور 1 لاکھ 71 ہزار 625 خواتین ہیں، جبکہ ڈینٹل پریکٹیشنرز میں مردوں کی تعداد 13 ہزار 581 ہے جبکہ 29 ہزار 965 خواتین ہیں۔‘
پی ایم ڈی سی کا کہنا ہے کہ ’یہ رجسٹریشن روزانہ کی بنیاد پر اپڈیٹ کی جاتی ہے، تاہم ان کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ کون سا ڈاکٹر ٹیکس ادا کرتا ہے اور کون سا نہیں۔‘

 پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایف بی آر کے اس بیانیے کو مسترد کیا ہے کہ ’ڈاکٹرز ٹیکس چوری میں ملوث ہیں‘ (فائل فوٹو: پِکسابے)

اردو نیوز نے اس معاملے پر معاشی امور کے ماہر اور سابق وزیرِ مملکت ہارون شریف سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر یہ مسئلہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان میں پروفیشنلز کی اکثریت نقد لین دین کرتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوتے اور پھر ایسے اعدادوشمار سامنے آتے ہیں۔‘
ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ’اس وقت نہ تو ایسی کوئی مؤثر ایسوسی ایشن موجود ہے اور نہ ہی کوئی مضبوط ریگولیٹر، جو نہ صرف پروفیشنلز کے ٹیکس معاملات بلکہ ان کے کام کے معیار پر بھی مؤثر نگرانی رکھ سکے۔‘
انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ’پاکستان میں ایسے پروفیشنلز کی تعداد خاصی زیادہ ہے جو اس انداز میں کام کر رہے ہیں کہ نہ تو وہ کسی رجسٹری میں شامل ہیں اور نہ ہی ایف بی آر یا دیگر متعلقہ اداروں کے پاس ان کا کوئی باقاعدہ ڈیٹا موجود ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایف بی آر کو سب سے پہلے ان پروفیشنلز کی رجسٹریشن پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ لوگ جب تک نظام کا حصہ نہیں بنتے، تب تک ٹیکس وصولی ممکن نہیں۔‘

ایف بی آر کے مطابق ’ایک لاکھ 30 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز میں سے صرف 56 ہزار نے انکم ٹیکس ریٹرنز فائل کیے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہارون شریف نے دوسرا اہم نکتہ یہ اٹھایا کہ ’پاکستان میں کیش لیس اکانومی کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ چاہے ڈاکٹرز ہوں یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز، جب وہ آن لائن یا ڈیجیٹل ذرائع سے لین دین کریں گے تو ان کا ریکارڈ خود بخود نظام میں آجائے گا۔‘
تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’ایف بی آر کو صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے یا ہراساں کرنے کے بجائے ایسے شعبوں کو ترغیبات دینی چاہییں۔‘
ہارون شریف نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’انہیں واضح ٹائم فریم دیا جائے کہ ایک یا پانچ سال کے اندر خود کو ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹر کریں اور اپنے مالی معاملات ایف بی آر کے سامنے ظاہر کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد انہیں باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا، جبکہ ماضی کے معاملات کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔‘
ہارون شریف سمجھتے ہیں کہ ’اس طرح کی ترغیبات دے کر لوگوں کو نظام کا حصہ بنانے کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے، کیونکہ صرف ڈرانے دھمکانے سے لوگ متبادل راستے اختیار کر لیتے ہیں لیکن ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوتے۔‘

شیئر: