Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسائل کا ادراک بھی، حل کی نیت بھی

***سجاد وریاہ***
پاکستان میں25جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں تحریکِ انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھر کے آئی ہے۔ تحریک ِانصاف کے چیئرمین عمران خان کو ایک کامیاب لیڈر کے طور پر دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے۔پورے ملک میں بالعموم اور تحریک انصاف میں خاص طور پر جشن منایا جا رہا ہے۔بالکل بجا اور بر محل کہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی ،عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں،اس بات پر فخر بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ایک ایسا لیڈر پاکستان کو ملا ہے جو دنیا بھر میں ایک اچھی شہرت رکھتا ہے اور پاکستان کا وقار بلند کرے گا۔ابھی چونکہ حکومت بنانے کے لئے جوڑتوڑ جاری ہے ،وفاق اور صوبوں میں ،سندھ کے علاوہ پی ٹی آئی ہی حکومت بنائے گی۔صوبہ بلوچستان میں بی اے پی کیساتھ اتحادی حکومت بنے گی۔
خوشگوار حیرت اور باعثِ اطمینان یہ بات ہے کہ حکومت ابھی بنی نہیں ،لیکن اس کی مقبولیت کے مثبت اشارے ملنے شروع ہو چکے ہیں،عمران خان کو ایک مثبت سوچ کے حامل،دیانتدار اور قابل اعتماد لیڈر کا مقام حاصل ہے ،ان کی ٹیم خیبر پختونخوا میں کارکردگی دکھا چکی ہے۔وہاں تحریکِ انصاف دو تہائی اکثریت سے جیت چکی ہے،جو کہ ان پر وہاں کے عوام کے اعتماد کا اظہار ہے۔
    پاکستان میں حکومت بنانا اور پھر کامیابی سے چلاناجُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ہر حکومت کا ایک’’’ ہنی مون ‘‘پیریڈ ہوتا ہے،لیکن اس نئی حکومت کو وہ بھی نصیب نہیں ہو گا کیونکہ بہت بڑے بڑے مسائل اور چیلنجز کا عفریت سر اُٹھائے پھنکار رہا ہے،جس کا سر کُچلنا اولین ترجیح ہے۔ان چیلنجز میں،دہشت گردی کا خاتمہ، معیشت کی بحالی،عالمی قرضوں کا بوجھ،لوڈشیڈنگ،پانی کی فراہمی،تعلیم ،صحت اورغربت و روزگار بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔تحریکِ انصاف کی ٹیم اس پر کام شروع کر چکی ہے،وہ ان مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور ان کے حل کی نیت بھی رکھتے ہیں۔سوال تو یہ اُٹھتا ہے کہ ان تمام جذبوں اور اچھی نیت کے باوجود کیا نئی حکومت ا ن مسائل کو حل کر پائے گی؟کیا عمران خان وہ تمام وعدے پورے کر سکیں گے،جن کی بنیاد پر پاکستان کو مشکلات سے باہر لے آئیں گے؟کیا ایسی تجربہ کار،ماہر ٹیم ہے ان کے پاس ،جو ملک کو ان چیلنجز سے نکال دے؟ان سوالات کے جوابات کے لئے عمران خان کی شخصیت اور ان کے عزائم سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ان معاملات کی حساسیت کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ عمران خان کی شخصیت کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ ایک فائٹر ہے،وہ چیلنجز کا فرنٹ سے مقابلہ کرتا ہے،اس کی سب سے اعلٰی بات یہ ہے ٹیم کا بے رحم انتخاب کرتا ہے اور پھر لڑا دیتا ہے۔کسی کا لحاظ نہیں ،کوئی رحم نہیں صرف میرٹ اور کارکردگی ہی اس کا معیار ہے۔یہ وہ اقدامات ہیں جو اس نے اپنی ٹیم کے انتخاب میں کرنے ہیں، عالمی سطح پر جناب عمران خان کاتعارف پہلے ہی پہنچ چکا ہے ،وہ یورپ کے ماحول کو سمجھتا ہے ،انگریزی زبان پر مہارت رکھتا ہے جس کی وجہ سے یورپی دنیا کے سامنے اپنا کیس بہتر صورت میں پیش کر سکتا ہے،معیشت کا بحران ،گردشی قرضے اس وقت پاکستان کے بڑے مسائل ہیں،ان کو حل کرنے کیلئے دوست ممالک کی مدد اور تعاون درکا رہو گا۔سعودی عرب ،چین،عرب امارات،ترکی اس محاذ پر پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کی خد مات لی جا سکتی ہیں۔سمندر پار پاکستانی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں اپنی رقوم بینکنگ چینل سے پاکستان بھیجیں تو ملکی معیشت کو وقتی استحکام دیا جا سکتا ہے۔دیر پا اور مضبو ط استحکام کے لئے ملک میں کرپشن کا خاتمہ اور ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا۔پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے گا ۔ ہند ،افغانستان،ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جانا بھی بنیادی چیلنج ہے،جن کے لئے جراٗتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ملک کے اندر سادگی کلچر کو بڑھایا جا رہا ہے،اس کے مثبت ثمرات بھی نظر آنا شروع ہو جائینگے۔سعودی عرب ،چین یو اے ای،برطانیہ اور امریکا میں متحرک سفیروں کو تعینات کیا جائے۔یورپی ممالک کے سفارتخانوں کو متحرک کیا جائے،تجارت بڑھائی جائے ،جس سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور سرمایہ ملک میں آئے گا۔پاکستان کے اندر تعلیم کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔اس نے کے پی کے میں سرکاری  اسکولوں کے معیار کو بلند کر دیا ہے،اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنا دیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز کو بند بھی نہیں کیا لیکن سرکاری اسکولز کا معیار بڑھنے سے ایک مقابلے کی فضا قائم کر دی ہے۔اسی طرح سر کاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو سہولیات فراہم کی گئی ہیں کہ وہ دیہی علاقوں میں کام کریں ۔شہری ہسپتالوں میں جدید سہولیات ،عوام کو فراہم کی گئی ہیں ۔ڈاکٹرزکی حاضری بھی یقینی بنادی گئی ہے۔صوبے میں بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا گیا ہے جو ایک بہترین اور جدید نظام ہے ۔پولیس کے ادارے کو سیاست سے پاک کر دیا گیا ہے۔سفارش بے جا مداخلت کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے۔پولیس کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے اور اس میں ایک ادارہ جاتی نظام متعارف ہو چکا ہے،جس میں وہ جواب دہی کے لئے بھی تیا ر ہو تے ہیں۔ان مثالوں سے یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ عمران خان ایک ٹیم کو منتخب کرنے اور اس کو لڑانے کی اہلیت ،کرکٹ اور سیاست ،دونوں میدانوں میں ثابت کر چکا ہے۔جس سے یہ رائے قائم کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ ان کی نیت اور عزائم بہت مثبت اور کچھ کرنے کے ہیں۔
ان کو سیاسی محاذ پر ایک چیلنج یہ بھی رہے گا کہ اپوزیشن جماعتیں ان کو کام نہیں کرنے دیں گی کیونکہ کے پی کے میں سب اپوزیشن جماعتوں کو تحریکِ انصاف نے چِت کر دیا ہے حالانکہ یہ صوبہ سب سے زیا دہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے،تمام اپوزیشن جماعتیںاب مجبور ہیں کہ کام کر کے دکھائیں یا پھر سازشوں سے تحریک انصاف کو کمزور کیا جائے۔اس چیلنج کو بھی دانشمندی سے حل کرنا ہو گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ا ن مسائل کے لا متناہی سلسلے کو ختم کرنے کے لئے قوم،میڈیا اور تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر پاکستان کو منجدھار سے نکالنے کے لئے حکومت کے جائز کاموں میں ساتھ دینا چاہئے اور غیر تعمیری کاموں پر کھلی تنقید کرنی چاہئے۔غیر ملکی میڈیا کی غیر ضروری تنقید کا ملکی میڈیا کو بھر پور جواب دینا چاہئے۔ ہندوستانی صحافی برکھا دت نے بھی عمران خان کی جیت کو خطے کے امن کے لئے نیک شگون قرار دیا ہے ،ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ہند میں بہت تعمیری تعلقات ہیں جن کو استعمال کر کے خطے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
میری نظر میں پاکستان اور نئی حکومت کے لئے بڑے چیلنجز عالمی محاذ پر ہیں۔حکومتی مشینری ،سفارتی محاذ کو مضبوط کر کے عالمی میڈیا میں اپنی حکمت عملی کی بھر پور تشہیر کر کے دنیا کو پیغام دیا جائے کہ پاکستان خطے میں امن کی خاطر مذکورہ قدم اُٹھا رہا ہے اور دنیا کی طرف سے حمایت درکار ہے۔اس سلسلے میں ہمارے اداروں ،فوج،عدلیہ،نیب اور میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہو گا اور حکومتِ وقت کو اپنے چیلنجز سے نبرد آزما ہو نے کا پورا موقع ملنا چاہیے۔یہ تو بات ہو گئی کہ کونسے چیلنجز ہیں ؟اور حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟
یہ سوال تو وہیں کھڑا ہے کہ کیا نئی حکومت ان چیلنجزکا سامنا کامیابی سے کر پائے گی ؟ان مسائل کو حل کر لے گی؟ میرا وجدان کہتا ہے کہ نئی آنے والی حکومت اپنے احداف حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دے گی۔ان کی نیت ،ان کا جذبہ بتا رہا ہے کہ ان کی ٹیم اپنے مشن کی تکمیل کی خاطر تمام تر توانائیاں صرف کر ے گی۔سرکار ی اداروں کو قابل اور اہل لوگ سنبھالیں گے ان کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی۔عمران خان کا انتظامی تجربہ،شوکت خانم،نمل یونیورسٹی،کے پی کے حکومت اور سب سے بڑھ کر کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنا ،ان تمام شعبوں میں سر چڑھ کے بول رہا ہے۔کپتان کی قیادت میں پاکستان ترقی،خوشحالی اور پُر امن ماحول کی طرف گامزن ہو جائے گا ،دنیا بھی امن و استحکام کی طرف اُٹھائے جانے والے اقدامات کو دیکھے گی اور پاکستان میں حکومت کی نیک نیتی اور مثبت اپروچ اس کی گواہی دیتی نظر آئے گی۔
 

شیئر: