Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صبح آزادی !!

***محمد مبشر انوار***
ایمان کی حد تک  میرا یقین ہے کہ پاکستان نہ صرف قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے بلکہ گزشتہ تمام  برسوں میں اس کی حیثیت کٹھالی سے گزرنے والی رہی ہے۔آج کے اس لمحے میں بھی ابھی تک یہ کندن نہیں بنا مگر سفر مسلسل جاری ہے۔ ہم بطور پاکستانی ایک ایسے سفر میں ہیں کہ ہمیں ہر صورت منزل مقصود تک پہنچنا ہے۔چھوٹے موٹے مسائل ،قیادت کا قحط الرجال،راستے کی ناہمواریاں، دشمنوں کے بچھائے جال،داخلی معاملات کی الجھی  ہوئی ڈور،خارجی  محاذ کے ان گنت  اور بظاہر لاینحل مسائل،پاکستان  اور پاکستانیوں کی منزل کھوٹی نہیں کر سکتے البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی وقت بھی صورتحال بدل سکتی ہے۔ جس  مقصد حیات کے لئے آزادی حاصل کی گئی،ایک آزاد  وطن حاصل کیا گیا،بطور  ریاست  اور قوم ہم اس مقصد حیات سے کوسوں دور ہیں کہ معاشرے کے  وہ افراد جوا س کے ذمہ دار تھے ،یا معاشرہ بذات خود،جسے اس نظام حیات کو اپنانا تھا،اپنے فرائض سے  غافل ہی نہیں بلکہ اسے  ہو بہو اپنانے کے لئے تیار ہی نہیں۔ایک مخصوص طرز حکومت کے تحت معرض وجود میں آنے والی اس ریاست کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا،وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ جمہوری اصولوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی اور ہنوز اڑائی جا رہی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جس  ریاست کو اسلام کے  آفاقی اصول مساوات کی مثال بننا تھا،اول روز سے انتشار اور غیر مساویانہ تقسیم کا شکار ہو گئی۔ کوئی بھی حکومت(آمر و سول)عوامی حقوق کی نگہبانی و پاسداری کرنے سے قاصر رہی۔انتخاب رائے،عوامی رائے کا سرعام مذاق اڑایا گیا،انتخابی عمل بذات خودمشکوک ٹھہرا،آمروں کی چیرہ دستیوں نے اس ملک کو دو ٹکڑے کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو دوسری طرف سیاستدان بھی ہوش کے ناخن لینے سے قاصر رہے۔
عام روزمرہ زندگی میں ایسے کئی اصول،ضابطے جو انتہائی معمولی مگر دور رس نتائج کے حامل ہیں،ان سے اغراض برتا جاتا ہے،انہیں درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا،ان کو گناہ کی بجائے معمول سمجھا جانے لگا ہے۔ علماء حق کی جگہ ،علمائے سو نے لے رکھی ہے اور ایسے ایسے فتوے اور حرکات کی جاتی ہیں کہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ جھوٹ جیسی لعنت عام ہے۔ہوس اقتدار ہی آخری  منزل ٹھہری ہے ، یہ  جانتے بوجھتے بھی کہ ہزاروں ایسے حکمران گزرے جن کا نام لیوا بھی اب کوئی نہیں مگر ایسے درویشوں اور فقیروں کی بھی کمی نہیں،جہاں آج بھی ہمہ وقت خلقت کا ہجوم رہتا ہے اور فیض حاصل کرتا ہے۔ ایک درویش کا اصل کام اور کردار فقط معاشرے کی رہنمائی اور کردار کی تعمیر رہی ہے۔ کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر علمائے حق سچ بات کہنے سے نہیں ڈرتے خواہ نتیجہ میں موت کو گلے لگانا پڑتا،جو حق بات ایک  بار کہہ دی،پھر اس پر ساری زندگی قائم رہے  جبکہ آج صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
جھوٹ کی طرح ہر نئے پل نیا جواز ڈھونڈنا اور  اس پر جم جانا ایک فیشن سا بنتا جا رہا ہے،کوئی بات کرنے سے پہلے  اس کا ادراک کرنا بھی گوارا نہیں کہ بالآخر اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ہندو بنئے سے لی گئی آزادی کی اہمیت تک سمجھنے سے قاصر ہمارے  رہنماؤں کی آنکھیں ہنوز بند ہیں،انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ  ہندوستان میں مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کے  پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،ان سے  جبراً کفریہ جملوں /نعروں کا مطالبہ کیا جاتاہے اور عدم تعمیل  پر نہ صرف انہیں تضحیک کا   نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں انتہائی بے دردی سے شہید کر  دیا جاتا ہے۔ اس نئی لہر میں  عمر و صنف کی بھی کوئی قید نہیں،کسی اے ٹی ایم مشین میںمسلم  وضع قطع دیکھ کر اکیلی  خاتون پر پل پڑتے ہیں،کسی ضعیف مسلمان کی عمر کالحاظ کئے بغیر ،ریش کی پروا کئے  بغیرتذلیل کر کے،بذریعہ تشدد اس سے  ہندوستان کے حق میں  نعرے لگوانے کی کوشش ہوتی ہے،کفریہ کلمات کہلوانے کی سعی لا حا صل ہوتی ہے،اسی طرح ایک  معروف مسلمان تن ساز کو  فقط مسلمان ہونے کی  وجہ سے انتہائی بے رحمی و بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ ہندوستان میں  مودی سرکار ببانگ دہل  ریاستی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مظاہرے کر رہی ہے مگر اقوام عالم الکفر ملت  واحدہ کی گنگ تصویر بنی ہوئی ہے۔ کشمیر میں  انسانی حقوق کی ایسی پامالی اپنے عروج پر ہے،جس کا آج کی مہذب دنیا میں کوئی تصور ممکن ہی نہیں ۔فلسطین میں جس طرح خون مسلم ارزاں ہیں، مہذب دنیا میں  اس سے کہیں  مہنگا پانی ہے، برما میں مسلمانوں کی ہونے والی قتل و غارت کے مقابلے مہذب دنیامیںجانوروں کے حقوق اس سے کہیں افضل لیکن  وہی بات کہ
تقدیر کے قاضی کا  یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی  سزا مرگ مفاجات
قائد اعظم اپنی ان تھک محنت  اور اولوالعزمی سے  اس قوم کو  آزادی  تو دلوا گئے مگر آفرین ہے اس مٹی کے  سپوتوں پر ،جو  روز اول سے ہی باہم جوتم پیزار ہیں،  اپنی اس سوچ اور ہندو بنئے کے  دعوے کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہیںکہ پاکستان کی  نئی ریاست کسی بھی  طور نہیں چل سکتی اور خدانخواستہ اسے ایک  دن واپس ضم ہوکر اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنا ہے۔بنئے کے  اس دعوے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی خاطر ہم نے کیسی کیسی مجرمانہ غفلت کا ارتکاب نہیں کیا؟کہاں کہاںپر اس کی جانے انجانے مدد نہیں کی؟داخلی محاذ ہو یا خارجی، کہاں کہاں اس کو واک اوور فراہم نہیںکیا؟اس سے  بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا کہ مسلم ریاستوں میں آج  ہندوستان کی سنوائی و رسائی پاکستان سے زیادہ،اس کی افرادی  قوت کی مانگ ہم سے کہیں  زیادہ، تجارت کا حجم ہم سے کہیں آگے، قوم پرستی میں  وہ متحد، بیرون ملک  وہ سب (مسلمان یا ہندو)  صرف  ہندوستانی،ان کی سیاسی وابستگیاں اور  سیاسی شغل محدود،اندرونی محاذ پر ان کی سیاسی قیادت مسلسل  روبہ عمل اور پاکستان کے پر کاٹنے میں  مصروف،پاکستان کو ایک  ناکارہ و  ناکام ریاست کے طور پر اقوام عالم میں  متعارف کروانے کا  کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے۔ پاکستان کو  بنجر کرنے کے خطرناک  ترین منصوبے زیر تکمیل اور اس کی معاونت کرنے  والا ہمارا قومی مجرم آزادانہ   بیرون ملک مکمل آسائشوں کے  ساتھ رہائش  پذیر مگر ارباب اختیار مکمل خاموش ہیں،کہیں کوئی  ایسا درنظر نہیں  آتا جو اس قومی مجرم کو  واپس لا کر قرار واقعی سزا دے سکے۔ یوں نصف شب کو آزاد ہونے والی  ریاست کے محکوم باشندے آج بھی شاہراہ  آزادی  پر ڈولتے،ڈگمگاتے،ہچکولے لیتے،لٹتے لٹتے کہیں  دور ٹمٹماتی،ملگجی سی  نظر آتی روشن صبح آزادی کی  آس میں آبلہ پا  رواںدواں کہ کبھی  تو یہ تاریکی چھٹے گی  اور انہیں صبح آزادی نصیب ہو گی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں