Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمر خالد پر قاتلانہ حملہ کیوں ہوا؟

معصوم مرادآبادی
 طالبعلم لیڈر عمر خالد پرقاتلانہ حملے میں شامل دونوں ملزمان آخر کار پولیس کی گرفت میں آہی گئے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے گزشتہ 13اگست کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہر عمرخالد پر گولیاں چلائی تھیں لیکن عمر خالد کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ جس وقت یہ حملہ ہوا کانسٹی ٹیوشن کلب میں ’خوف سے آزادی‘کے زیر عنوان ایک پروگرام شروع ہونے والا تھا۔ نفرت کے خلاف مہم چلانے والی ایک تنظیم نے اس پروگرام کا اہتمام ملک میں جا بجا ہورہے منافرانہ حملوں کی مخالفت میں کیا تھا۔ کہیں گئو کشی کے نام پر اور کہیں دوسرے منافرانہ الزام میں بے گناہوں پر لگاتار حملے کئے جارہے ہیں اور انہیں جان سے ماراجارہا ہے۔ ان حملوں کا شکار ہونے والے 95فیصد مسلمان ہیں ۔عمر خالد بھی ایسی ہی ایک منافرانہ مہم کا نشانہ ہیں جو میڈیا اور فرقہ پرست عناصر نے ان کے خلاف چھیڑرکھی ہے۔ عمر خالد کے علاوہ اس مہم کا نشانہ نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے دیگر طلباء لیڈر بھی ہیں جن میں سابق یونین صدر کنہیا کمار اور سکریٹری شہلا رشید بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کوپچھلے ڈھائی سال سے مسلسل سماج دشمن عناصر کی طرف سے قتل کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔
    آپ کو یاد ہوگا کہ اب سے ڈھائی برس قبل جے این یو میں نکالے گئے ایک جلوس کے حوالے سے میڈیا نے ایسا کہرام برپا کیا تھا کہ پورا ملک جے این یو کو ایک دانش گاہ کے بجائے ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز سمجھنے لگا تھا۔ کہاگیا تھا کہ اس جلوس میں ہندوستان کی بربادی کے نعرے لگائے گئے تھے اور یہ جلوس پارلیمنٹ پر حملے کے ملزم افضل گرو کی برسی پر ان کی حمایت میں نکالا گیا تھا۔ بعد کو جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہواکہ جلوس میں نہ تو ملک دشمن نعرے لگے تھے اور نہ ہی افضل گروکی حمایت کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ٹی وی چینلوں پر جو ویڈیو نشر کی گئی تھی اس میں جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی اور ملک دشمن نعرے جعل سازی کرکے شامل کئے گئے تھے۔ اس معاملے میں جے این یو کے طلباء لیڈر کنہیا کمار کے ساتھ عمر خالد اور بعض دیگر طلباء کو بھی وطن دشمنی کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا تھا۔ بعد کو یہ لوگ ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔ پولیس اس معاملے میں اب تک فرد جرم داخل نہیں کرسکی ہے کیونکہ اس کے پاس ثبوتوں کا فقدان ہے۔ تبھی سے عمرخالد اور کنہیاکمار کو منافرانہ مہم کا مسلسل نشانہ بنایاجارہا ہے اور ان نوجوانوں کی شبیہ ملک دشمنوں کی بنادی گئی ہے۔ جبکہ یہ لوگ باربار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ انہوں نے نہ تو کبھی ملک دشمن نعرے لگائے اور نہ ہی وہ کسی قسم کی وطن دشمن سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان لوگوں کے خلاف منافرانہ مہم ابھی تک بند نہیں ہوئی ہے۔ عمر خالد پر ہونے والا جان لیوا حملہ بھی اسی مہم کا نتیجہ ہے۔ عمرخالد کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کو اپنی جان پر منڈلارہے خطروں سے مسلسل آگاہ کرتے رہے ہیں کیونکہ انہیں باربار سماج دشمن عناصر کی طرف سے قتل کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن پولیس انہیں سیکورٹی فراہم نہیں کررہی ۔ عمر خالد پر حملے کے اگلے روز سری نگر میں شہلا رشید کو بھی جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی جس کی باقاعدہ ایف آئی آر سری نگر میں درج کرائی گئی ہے۔
    یوم آزادی سے دوروز قبل نئی دہلی کے انتہائی نگہداشت والے علاقے کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہر جب عمرخالد پر گولیاں چلائی گئیں تو پولیس یوم آزادی کی تقریبات کے انتظام میں مصروف تھی۔ حملہ آور نے جب عمر خالد پر پستول تان کر فائرنگ کی تو وہ حیرت زدہ رہ گئے اور خوف کے عالم میں اپنا دفاع بھی نہیں کرسکے۔ حملہ آور کا نشانہ چوک گیا۔ قدرت کو عمر خالد کی زندگی مطلوب تھی ، لہٰذا وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا لیکن موقعہ واردات پر وہ پستول چھوڑ گیا جس سے گولیاں چلائی گئی تھیں۔ بھاگتے ہوئے حملہ آور کی تصویر سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہوگئی اور پولیس نے اس کی تلاش شروع کردی۔ اپنی شناخت عیاں ہونے کے بعد حملہ آور اور اس کے ساتھی نے دوروزبعد ایک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپنی ویڈیو جاری کرکے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ دونوں نے خود کو محب وطن قرار دے کر عمرخالد پر حملہ کرکے ملک کو یوم آزادی کا تحفہ دینے کی بات کہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہاتھا کہ وہ 15اگست کو لدھیانہ میں خودسپردگی کردیں گے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ دونوں ملزمان کو پولیس نے آخر کار پیر کی صبح ہریانہ سے گرفتار کرلیا۔ دونوں گرفتار شدگان کی شناخت ہریانہ کے باشندے نوین دلال (حملہ آور) اور جیند کے باشندے درویش شاہ پور (معاون) کے طورپر ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہریانہ میں چارپانچ مقامی لڑکوں نے مل کر انقلابی گئو رکشا دل بنارکھا ہے اور مذکورہ دونوں حملہ آور اسی کے سرگرم کارکن ہیں۔ نوین کے موبائل لوکیشن کے علاوہ دیگر جانچ سے واضح ہوچکا ہے کہ ملزمان عمر خالد پر حملے والے دن سے ہی گاؤں سے فرار تھے۔ درویش عمر خالد کے فیس بک پیج کو فالو کرتا تھااور اسے عمر خالد کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہونے والے پروگرام کی اطلاع فیس بک سے ہی ملی تھی اور دونوں عمر خالد کا کام تمام کرنے وہاں پہنچے تھے۔
    بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے ملک کا الیکٹرانک میڈیا اس طرح بے گناہوں کے خلاف نفرت کی فصل تیار کرکے انہیں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے عناصر کا نشانہ بناکر آخر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میڈیا کا بنیادی کام خبروں کی ترسیل ہے، وہ آخر ایک ایسی منافرانہ مہم کا حصہ کیوں بن گیا ہے جو ملک کو تباہی وبربادی کی طرف لے جارہی ہے۔ ماضی میں فرقہ پرست اور فسطائی عناصر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر انہیں فسادیوں کا نرم چارہ بنایا کرتے تھے لیکن اب وقت بدلنے کے ساتھ نفرت پھیلانے کا کام میڈیا نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور وہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کا آلہ کار بن گیا ہے۔ عمر خالد کو عوام کی نگاہ میں ویلن بنانے کی تمام تر ذمہ داری الیکٹرانک میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ میڈیا نے عمر خالد کے خلاف جس قسم کا پروپیگنڈہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں اس کی شبیہ ایک انتہائی خطرناک ملک دشمن کے طورپر بنادی گئی ہے۔ جبکہ عمر خالد بنیادی طورپر جے این یو کا ایک انقلابی طالب علم ہے اور اس نے حال ہی میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - -کیا ہم واقعی محفوظ ہیں؟

شیئر:

متعلقہ خبریں