کرکٹ شائقین بالخصوص پاکستانی فینز کے لیے اس دسمبر کا ایک اہم واقعہ بابراعظم کا پہلی بار آسٹریلین کرکٹ ٹی20 لیگ بگ بیش کھیلنا ہے۔
بابر اعظم نے بگ بیش کی ٹیم سڈنی سکسرز کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ کرکٹ شائقین اور کرکٹ تجزیہ نگاروں کو اس میں دلچسپی ہے کہ کیا بابراعظم آسٹریلین پچز پر بگ بیش ٹی ٹوئنٹی میں اپنا رنگ جما پائیں گے یا نہیں؟
پچھلے سال ڈیڑھ سے بابر زیادہ اچھی فارم میں نہیں رہے، وہ قومی ٹیم سے کچھ عرصہ باہر بھی رہے۔ تاہم حال ہی میں انہوں نے سری لنکا کے خلاف سہ ملکی ٹی20 سیریز میں مناسب کارکردگی دکھائی، ایک آدھ بڑی اننگ بھی کھیلی۔
مزید پڑھیں
-
نیا سال نیا سپانسر، بابر اعظم نے اپنا بیٹ تبدیل کر لیاNode ID: 883827
-
بگ بیش لیگ اوورسیز ڈرافٹس، کون سے پاکستانی کھلاڑی نمایاں رہے؟Node ID: 891136
وہ حال ہی میں طویل عرصے کے بعد ون ڈے سنچری بنا چکے ہیں۔
بگ بیش بابر اعظم کی تکنیک کا امتحان بھی سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے وائٹ بال کوچ مائیک ہیسمین نے چند ماہ قبل جب بابر ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے باہر تھے، تب بیان دیا تھا کہ بابراعظم بگ بیش کھیل کر اپنی فارم اور پرفارمنس ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ اور بات کہ ایشیا کپ میں بری کارکردگی کے بعد بابراعظم کی قومی ٹی20 ٹیم میں واپسی ہوچکی ہے اور اب بگ بیش ان کے لیے ٹیم میں انٹری گیٹ تو نہیں رہا مگر پھر بھی ہر کوئی بابر کی پرفارمنس پر نظر جمائے ہوئے ہے۔
آسٹریلیا میں پرفارم کرنا جنوبی ایشیائی بلے بازوں کے لیے ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ وہاں کی پچیں تیز اور باؤنسی ہیں۔ وہاں فاسٹ بولر کا گیند پاکستان، انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش وغیرہ کی نسبت کئی انچ ایکسٹرا باؤنس لیتا ہے اور ِسکڈ بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جنوبی ایشیائی بلے بازوں کی تکنیک اگر بہتر نہ ہو تو وہ جلدی وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔
بابر اعظم کا آسٹریلیا میں ریکارڈ برا نہیں، ان کی بیٹنگ تکنیک ایسی ہے کہ وہ بلے پر آنے والی گیند کو پسند کرتے ہیں۔ بابر کی تکنیک شاندار ہے، ان کے کور ڈرائیو تو ایک مثال بن چکے ہیں، وہ گراؤنڈڈ شاٹس کھیلنا پسند کرتے ہیں، فلک اور ڈرائیو اچھا کرتے ہیں، کٹ بھی کرتے ہیں اور اب تو اپنے پل شاٹس کو بھی خاصا بہتر کر چکے ہیں۔
آسٹریلوی سابق کرکٹرز اور ماہرین کا خیال ہے کہ آسٹریلین پِچیں بابر اعظم کے بیٹنگ سٹائل کے لیے موزوں ہیں اور اگر ان کی فارم بہتر رہی تو وہ بہت سوں کو حیران کر سکتے ہیں۔ سابق آسٹریلین کپتان ایرون فنچ نے تو بابر کو کنگ اور گیم چینجر کھلاڑی کہا ہے۔

بابر کی سڈنی سکسرز سے بڑی ڈیل ہوئی ہے۔ اسے اس بگ بیش کی مہنگی ترین سائننگ کہا جا رہا ہے۔ بابراعظم نے پورے سیزن کے لیے ڈیل کی ہے اور انہیں 10 کروڑ پاکستانی روپے دیے جائیں گے۔
بگ بیش 14 دسمبر سے شروع ہو کر 25 جنوری تک جاری رہے گا۔
جنوری کے پہلے ہفتے کے بعد پاکستان سری لنکا تین ٹی20 میچز کھیلنے جائے گا۔ امکانات ہیں کہ بابر اعظم 14 دسمبر کو اپنے پہلے میچ کے بعد یکم جنوری تک پانچ مسلسل میچز کھیل کر پھر دس بارہ دن کا گیپ لے کر قومی ٹیم سے میچز کھیلیں۔
بابر اس کے بعد دوبارہ بگ بیش جوائن کر سکتے ہیں، جہاں وہ سڈنی سکسرز سے آخری دو تین میچز کھیلیں گے اور اگر ٹیم پلے آف میں گئی یا فائنل تک پہنچی تو اختتامی میچز کھیل سکتے ہیں۔
اس کے بعد جنوری کے اختتام میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی اور پھر فروری میں ٹی20 ورلڈ کپ ہو گا جس میں پاکستان کے میچز سری لنکا کے دو شہروں کولمبا، کینڈی میں کھیلے جائیں گے۔
بابر اعظم نے نو دسمبر کو سڈنی سکسرز ٹیم کو جوائن کر لیا، وہ پریکٹس سیشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ چودہ دسمبر یعنی اتوار کو بابر اعظم بگ بیش میں ڈیبیو کریں گے۔ ان کا پہلا میچ اوے گراؤنڈ پر ہو گا، پرتھ کی پچ پر پرتھ سکارچرز کے مقابل۔سڈنی سکسرز بگ بیش کی اہم اور بڑی ٹیموں میں شمار ہوتی ہے۔

تین بار یہ بگ بیش جیت چکے ہیں جبکہ ایک دو بار فائنل اور پلے آف میں بھی پہنچے۔ پچھلی بار تیسرے نمبر پر رہے۔ سڈنی سکسرز میں سٹیو سمتھ اور مچل سٹارک بھی شامل ہیں، مگر یہ دونوں سردست ایشز کھیل رہے ہیں۔
اس بار بگ بیش میں چھ سات پاکستانی کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی (برسبین ہیٹ)بھی اس بار بگ بیش کا حصہ بنے ہی، حارث رؤف تو کئی برسوں سے کھیل رہے ہیں، ان کی ٹیم میلبورن سٹارز ہے۔
بابر اعظم کے ایک اچھے دوست شاداب خان فٹ ہوچکے ہیں، وہ سڈنی ہی کی ایک اور ٹیم سڈنی تھنڈرز سے کھیلیں گے۔ محمد رضوان میلبورن رینیگیڈز کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ حسن علی بھی بگ بیش کے چند میچز کھیلیں گے۔
آج کل آسٹریلیا میں مہمان ٹیم انگلینڈ کے خلاف ایشز سیریز چل رہی ہے، دو ٹیسٹ ہوچکے، تین ٹیسٹ ہونے ہیں، اسی وجہ سے کئی اہم آسٹریلوی کھلاڑی بگ بیش کے آدھے سے زیادہ میچز نہیں کھیل پائیں گے۔ سٹیو سمتھ، مچل سٹارک، ٹریوس ہیڈ وغیرہ ٹیسٹ سیریز میں مصروف ہیں، جبکہ کمنز اور جوش ہیزل وڈ وغیرہ انجریز کی وجہ سے بگ بیش سے باہر ہیں۔
بگ بیش میں اس بار بابر اعظم کی خاصی ہائپ بنی ہوئی ہے۔ آسٹریلین میڈیا اس پر حیران بھی ہے، انہیں یقین نہیں آ رہا کہ بابراعظم کے حوالے سے فینز اور شائقین اس قدر ایکسائٹیڈ ہیں۔ سڈنی سکسرز نے بھی بابر کو بھرپور پروٹوکول دیا ہے۔ سڈنی سکسرز کی ٹیم میں چھپن نمبر کی شرٹ مچل سٹارک پہنتے ہیں۔ بابر اعظم بھی پاکستانی ٹیم میں چھپن نمبر کی شرٹ پہن کر کھیلتے ہیں۔ سڈنی سکسرز نے بابر اعظم کو وہی نمبر دینے کے لیے انہیں صفر چھپن (056)نمبر کی شرٹ الاٹ کی ہے تاکہ بابر اسی چھپن نمبر ہی میں رہ سکیں۔
سڈنی سکسرز کا سٹیڈیم سڈنی کا مشہور اور تاریخی کرکٹ گراونڈ (SCG)ہے۔ اسی سٹیڈیم میں ایک حصے کو بابر اعظم کی مناسبت سے بابرستان کا نام دیا گیا ہے۔
سنا ہے کہ سڈنی سکسرز کا دوسرا میچ جو سڈنی کے اسی گراؤنڈ میں ہو گا ، اس میچ کے لیے بابرستان سٹینڈ کے ٹکٹس فروخت بھی ہو گئے، بابر کے فینز نے خرید لیے۔ روایتی طور پر یہ گراؤنڈ زیادہ تیز بولنگ کی نسبت سپن بولنگ کو نسبتاً زیادہ سپورٹ کرتا ہے۔

پاکستانی ٹیم کی آسٹریلیا میں کارکردگی پرتھ اور میلبورن کی نسبت سڈنی میں قدرے بہتر رہتی ہے۔ بابر اعظم کے ابتدائی پانچ میں سے تین میچ سڈنی ہی میں ہیں۔
بابر کا پہلا میچ پرتھ میں ہو گا جس کی پِچ ایک زمانے میں بہت تیز سمجھی جاتی تھی تاہم بگ بیش میں پچھلے دو برسوں سے پرتھ کی پچ نسبتاً فلیٹ بن رہی ہیں۔
آسٹریلوی میڈیا رپورٹس کے مطابق اب پرتھ میں 160 سے ایک 180 رنز بن جاتے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ بابر سڈنی سکسرز کی ٹیم میں اوپننگ کریں گے، ان کے ساتھ جارح مزاج فلپ جوش ہوں گے۔ آسٹریلین ماہرین کے مطابق سڈنی سکسرز کی ٹیم اینکر سٹائل بلے باز بابر اور جارح ہٹر فلپ کا اچھا کمبی نیشن دیکھ رہی ہے۔ البتہ جب بگ بیش کے آخری میچز میں سٹیو سمتھ واپس آ گئے تو پھر بابر کو ون ڈاؤن بیٹنگ کرنا پڑے گی۔ سمتھ بگ بیش میں اوپننگ کرتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کی پچز پر گیند بلے پر آتا ہے اور بابر وہ بیٹر ہے جس کی پوری بیٹنگ تیزی سے بلے پر آتی گیندوں کو بہتر ہینڈل کرنے پر بنی ہے۔ بابر اعظم کے بیک فٹ کور ڈرائیور، سکوئرکٹ، فلک، گلانس آن ڈرائیو اور سنگلز، ڈبلز وغیرہ اہم ہتھیار ہوں گے۔
پرتھ سکارچرز اگرچہ اپنے پچھلے پانچ میں سے چار میچز ہار چکی ہے، مگر یہ اچھی ٹیم سمجھی جاتی ہے، خاص کر پرتھ کی پچ پر ان کے پاس اچھی فاسٹ بولنگ آپشن ہیں۔متوقع طور پر پرتھ سکارچرز کی مین بولنگ اٹیک میں جے رچرڈسن اور لانس مورنس سے پاور پلے میں واسطہ پڑ سکتا ہے۔ دونوں خاصے تیز بولرز ہیں۔
رچرڈسن کی رفتار ایک سو چالیس کلومیٹر سے زیادہ ہے، گیند کو اچھا سوئنگ کراتے ہیں، بابر کو یہ ان سوئنگر پر آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گا کیونکہ ماضی قریب میں بابر کئی بار ان سوئنگ پر ایل بی ڈبلیو ہوئے ہیں۔
رچرڈسن وکٹ ٹو وکٹ بولنگ کراتے ہیں، ان کی سکڈ ہوتی تیز گیندیں اور دونوں طرف سوئنگ اوپنرز کے لیے مشکل پیدا کرتی ہیں۔ بابراعظم کو احتیاط کرنا ہو گی۔

پاور پلے میں دوسرے خطرناک بولر لانس مورس ہیں۔ لمبے قد کے مورنس کو پرتھ کی پچ پر باؤنس میں خاصی مدد ملتی ہے، وہ شارٹ پچ گیندوں پر اکثر وکٹیں لیتے ہیں۔ بابر کو احیتاط کرنا ہو گی۔
درمیانے اوورز میں برائس جیکسن یا آل راؤنڈر ایرون ہارڈی سے واسطہ پڑ سکتا ہے، یہ اچھی سلو بال کراتے ہیں۔ بابر آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے ہارڈی کو فیس کر چکے ہیں۔ ایشٹن اگر سڈنی پرتھ سکارچرز کے لیفٹ آرم سپنر ہیں۔ یہ بھی آسٹریلیا کی طرف سے خاصا کھیل چکے ہیں، بابر نے یقینی طور پر انہیں پہلے کھیلا ہو گا۔
ایشٹن آگر کی لائن لینتھ اچھی ہے، دیکھنا ہو گا کہ بابر انہیں کس طرح کھیلتے ہیں!
بابر اعظم کے لیے پاور پلے میں اپنی وکٹ بچا کر کچھ رنز بنانا اہم ہو گا، بابر کو اینکر رول ہی دیا جائے گا جس میں ان کے پاس مارجن ہو گا کہ وہ درمیانے اوورز میں ایک اینڈ بچاتے ہوئے رنز بنا سکیں۔
بگ بیش میں بابر اعظم کے لیے بڑا اچھا موقعہ ہے کہ پرفارم کریں، اپنا اعتماد بحال کریں اور ورلڈ کپ کے لیے اچھی فارم حاصل کریں۔
بابر ایک سمجھ دار اور محنتی کھلاڑی ہیں، اپنے کھیل کو وہ مسلسل بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تاہم کچھ عرصے سے وہ ان کٹرز گیندوں پر پریشان ہو رہے ہیں۔ ان کے بیٹنگ سٹانس پر بھی بات ہو رہی ہے۔
سنیل گواسکر کے مطابق بابر کو اپنے دونوں پیروں کا فاصلہ کچھ کم کرنا چاہیے۔ گواسکر کے خیال میں یہی مسئلہ وراٹ کوہلی کے ساتھ تھا، تھوڑا سا پیروں کے درمیان فاصلہ کم کرنے سے کوہلی کی دفاعی تکنیک بہتر ہو گئی۔

اسی طرح آج کل بابر کھیلتے ہوئے وکٹ کے سامنے فرنٹ پوسچر سے آ جاتے ہیں، راشد لطیف نے اس پر ویڈیوز بنا کر بتایا کہ اس طرح بابر کے ایل بی ڈبلیو ہونے کا چانس بڑھ جاتا ہے۔ یہ مسئلہ ’کَھبے‘ سپنرز کے سامنے بھی پیش آ رہا ہے۔ خاص کر جن کا گیند پڑ کر اندر آئے۔
بابر اعظم کئی بار رائیٹ آرم لیگ سپنرز کی گُگلی گیند پر بھی آؤٹ ہوئے ہیں۔ ان تمام خامیوں پر بابر خود بھی کام کررہے ہیں، انہیں بہترین کوچز کی رہنمائی بھی حاصل ہے۔
امید کرنی چاہیے کہ بگ بیش میں زیادہ بہتر تکنیک اور اچھی ٹائمنگ والا بابراعظم دیکھنے کو ملے گا۔
یہ بھی امکان ہے کہ یہ ٹورنامنٹ بابر کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہو۔ بگ بیش کی مسابقتی کرکٹ بلے باز کو مزید پالش بھی کر دیتی ہے۔ اس امتحان سے بابر سرخرو ہوئے تو دو ماہ بعد ہونے والے ورلڈ کپ میں ان سے بہت اچھی کارکردگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ہم سب کی دعائیں، نیک تمنائیں بابر اعظم کے ساتھ ہیں۔ بیسٹ آف وشز کنگ بابر!












