Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارے بچے او رانٹرنیشنل اسکول

محمد الساعد۔ الوطن
ماضی بعید کے عرب اپنے بچوں کو اپنا بچپن گزارنے کیلئے بادیہ نشینوں کے حوالے کردیتے تھے۔ انہیں صحیح عربی زبان سیکھنے کیلئے شہروں سے دور رکھتے ۔ عرب بچے بادیہ نشینوں کے ساتھ رہ کر یومیہ زندگی والی ٹکسالی زبان سیکھ لیتے تھے۔ اس رواج نے عرب بچوں کو عربی زبان سے مالا مال کئے رکھا۔ اس رواج نے عربی زبان کی بلاغت اور فصاحت کے مختلف فنون میں دسترس رکھنے والی نسلیں تیار کیں۔ ادبی اور لسانی ورثہ عطا کیا۔ بلاغت و فصاحت میں غلبہ دیا۔ اسی ماحول میں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنی کتاب قرآن کریم نازل کی۔ قرآن کے ذریعے فصاحت و بلاغت کے دلدادہ عربوں کو انکے اس میدان میں چیلنج دیا گیا جس کا وہ خود کو شہسوار سمجھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو قرآن کریم کی شکل میں آسمانی معجزہ عطا کیا گیا۔
ماضی کے عربوں اور عصر حاضر کے عربوں میں بڑا فرق آگیا ہے۔ آج کی عرب مائیں اپنے بچو ںکی طرف سے غافل ہوچکی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو غیر ملکی ملازمہ کے حوالے کردیتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عرب بچے اپنی مادری زبان ٹیڑھی میڑھی ہی سیکھ پاتے ہیں۔ وہ بچپن سے صحیح عربی زبان سننے سے محروم رہتے ہیں۔ یہ بچے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو نرسری کے حوالے کردیئے جاتے ہیں جہاں انہیں ترجیحی بنیادو ںپر انگریزی یا فرانسیسی زبان سکھائی جارہی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عرب والدین اپنے بچوں کو انٹرنیشنل اسکولوں میں داخل کرکے فخر و ناز کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چمکدار غیر ملکی اسکولوں کے نام لیکر بتاتے ہیں کہ ہمارا بچہ فلاں انٹرنیشنل اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ یہ بات بھی بڑے ذوق و شوق سے مجلسوں میں دہراتے ہیں کہ انکا بچہ اے بی سی ڈی کا نغمہ کسی تتلاہٹ کے بغیر گا لیتا ہے۔ ان والدین کو یہ کہتے وقت غالباً اس حقیقت کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کے بچے عہد طفولت میں اپنی مادری زبان سے محروم ہورہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ وہ غیر ملکی زبان کی بھی کوئی خدمت نہیںکرپاتے کیونکہ عمر کے جس مرحلے میں وہ اپنے بچوں کو غیر ملکی زبان سکھا رہے ہوتے ہیں وہ اس کا مناسب وقت نہیں ہوتا۔
بہت سارے اسکالرز نے انسانوں کے یہاں زبان سیکھنے کے حوالے سے حیاتیاتی چارٹ تیار کیا ہے۔ بیشتر مطالعات اور تحقیقی جائزے بتا رہے ہیں کہ مادری زبان سکھانے کا مثالی وقت نرسری، تمہیدی اور پرائمری اسکول والا ہوتاہے۔ اس مرحلے میں غیر ملکی زبان سکھانے کا نقصان مادری زبان پر پڑتا ہے۔ اس دوران بچے غیر ملکی زبان بھی صحیح طریقے سے نہیں سیکھ پاتے۔
دنیا بھر کے ماہرینِ تربیت جن میں ترقی یافتہ ممالک کے ارباب بھی شامل ہیں، یہ بات مانتے ہیں کہ بچوں کو تعلیم کے ابتدائی مرحلے میں غیر ملکی زبان کے تسلط سے بچایا جائے۔ جرمن یا سویڈن یا فرانس، یا چین، یا روس، یا جاپان کے بچوں کو مطالعے ، رسم الخط اور سائنس کے اصول اسکی مادری زبان کے سوا کسی اور زبان میں نہ سکھائے جائیں۔ غیر زبانو ں کی تعلیم مڈل یا ثانوی کے مرحلے تک ملتوی رکھی جائے۔ یورپی ممالک میں غیر ملکی زبان کی تعلیم انتہائی ممنوع مانی جاتی ہے۔ سویڈن میں پرائمری ،مڈل اور ثانوی کی تعلیم سویڈش زبان میں دی جاتی ہے۔ مادری زبان کی اہمیت کے پیش نظر بہت سارے ممالک اپنے بچوں کو مادری زبان بنیادی مضمون کے طور پر پڑھوا رہے ہیں۔ عرب دنیا کا حال عجیب و غریب ہے۔ یہاں انارکی کا ماحول پایا جاتا ہے۔ 
عرب شہروں میں انٹرنیشنل اسکولوں کی بھرمار کا رواج ہر سو نظرآرہا ہے۔ یہ کوئی اچھا رواج نہیں۔ اس سے نہ تو تربیتی عمل موثر ہوگا اور نہ ہی ثقافتی، سیاسی اور نہ ہی اسکے اقتصادی نتائج برآمد ہونگے۔ وجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل اسکولوں کی پہلی ترجیح غیر ملکی زبانوں کی تعلیم اور ان میں مہارت پیدا کرانا ہے۔ ظاہر ہے ان کے سامنے اس حوالے سے کمسن بچے ہی ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے اہداف پورے کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: