Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بڑھک

***جاوید اقبال ***
امریکہ!ریاست ہائے متحدہ امریکہ! کرۂ ارض کی اکلوتی سپر پاور جو جب چاہے 8ارب انسانوں سے آباد اس سیارے کو تہس نہس کر کے پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دے ۔ ذرا اسکے پیٹ پر سے کپڑا اٹھاتے ہیں ۔ 
کوئی 2دہائی قبل میں شکاگو میں اپنے ایک دوست کے ہاں ایک ہفتے کیلئے مقیم رہا ۔ اسی دوران ہی مکے بازی پر ایک شاندار ویڈیو فلم دکانوں پر آئی ۔ اس میں چند عظیم ہیوی ویٹ مکے بازوں کو باہم بٹھا کر ان کا آپس میں مکالمہ کرایا گیا تھا ۔ محمد علی کلے ، جارج فورمین ، جوفریزر ، کین نارٹن اکٹھے بٹھائے گئے اور ان سے ان کے تاریخی مقابلوں کی روداد سنی گئی ۔ محمد علی کلے ہمیشہ سے ہی میرے دلپسند کھلاڑی رہے ہیں ۔ جب میں نے اس ویڈیو فلم کا اشتہار پڑھا تو اپنے دوست سے دیکھنے کی خواہش ظاہر کر دی ۔ اُس شام وہ دفتر میں مصروف تھا چنانچہ اس نے مجھے قریبی ویڈیو کی دکان کا پتہ سمجھا کر درخواست کی کہ میں خود ہی جا کر پروگرام خرید لوں تاہم اس نے مجھے ہدایت کی کہ مبلغ 5ڈالر کا ایک نوٹ اپنی قمیص کی اوپر والی جیب میں ضرور رکھ لو۔ استفسار کرنے پر اس نے وضاحت کی ’’بھائی !شکاگو جرائم کا گڑھ ہے ۔ شام ڈھلے ہی یہاں سیاہ فاموں کے گروہ سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے لگتے ہیں ۔ گلیوں کی نکڑ یں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ کسی نیم تاریک موڑ پر ایسا ہی کوئی نوجوان اچانک نمودار ہو کر چاقو آپ کے سینے پر رکھ دے اور رقم کا مطالبہ کر دے ۔ آپ فوراً انتہائی خوشدلی سے اپنے جیب سے 5ڈالر کی رقم اس کے حوالے کر دیں ۔ اگر یہ رقم اسے نہ ملی تو چاقو کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ میں ابھی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ بولا’اور ہاں رستے میں ایک چھوٹا سا پارک بھی پڑتا ہے ۔ راہ کو مختصر کرنے کیلئے اس میں سے نہ گزرنا ۔ رات کے گہرا ہوتے ہی وہاں درجنوں نشئی آبیٹھتے ہیں ۔ منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور ٹیکے لگا کر سرنجیں ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں ۔ وہاں کھیل کیلئے آنے والے درجنوں بچوں کو یہ سوئیاں چبھنے کی وجہ سے ایڈز کا مرض لاحق ہو چکا ہے ۔ 
ایک اور واقعہ!کوئی 2برس ادھر کی بات ہے، میں نیویارک میں تھا ۔ چند اشیاء خریدنے کیلئے ایک سپر اسٹور میں چلا گیا ۔ فارغ ہونے کے بعد ادائیگی کیلئے صف میں لگ گیا ۔ میری باری آئی تو کیش رجسٹر پر بیٹھی خاتون نے حساب کر کے مجھے رقم بتائی ۔ میں ریاض سے گیا تھا اس لئے میرے پاس ڈالر تھے ۔ 100 ڈالر کا نوٹ اس کی طر ف بڑھا دیا ۔ وہ متحیر سی ہو کر مجھے دیکھنے لگی ’سر! آپ کے پاس کریڈٹ کارڈ نہیں ہے ؟‘اس نے پوچھا ، میں نے معذرت کی اور اسے بتایا کہ میں سعودی عرب سے آیا ہوں۔ یہ بہت بڑا نوٹ ہے ۔ میرے پاس اتنی ریزگاری نہیں ہو گی ۔ وہ بولی اور پھر کیش رجسٹر کی دراز کھول کر اس میں سے چھوٹے نوٹ نکال کر گننے لگی ۔ میرے پیچھے صف میں لگے گاہک بھی مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔ کیشئر اٹھ کر دوسری صف پر بیٹھی اپنی ساتھی کے پاس گئی اور ا س سے کچھ نقدی حاصل کر کے واپس آئی ۔ مجھے بقایات دیتے ہوئے بولی: سر ! یہ ایک100 ڈالر بڑی رقم ہے۔ یہاں کسی کے پاس اتنا بڑا نوٹ نہیں ہوتا ۔ آپ اب احتیاط سے باہر جائیں ۔ ایک ایک ڈالر کیلئے بھی یہاں جرم ہوتا ہے ۔ 
ریاست ہائے متحدہ امریکہ!کرۂ ارض کی اکلوتی سپرپاور امریکہ !پیٹ پر سے کپڑا تھوڑا اور اوپر سرکاتے ہیں ۔ کرۂ ارض کے سب سے زیادہ مقروض ملک میں بیروزگاری ایک سرطان کی طرح معاشرے اور معاشرتی اقدار کو تہس نہس کر رہی ہے ۔ وفاقی ادارہ شماریات اور ادارۂ محنت کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق کسی بھی وقت 79لاکھ امریکی بیروزگار ہوتے ہیں جبکہ 29لاکھ ایسے ہیں جو اتنے مایوس اور بد دل ہو چکے ہیں کہ اب انہیں کام کی جستجو بھی نہیں ۔ اس بیروزگاری کے عفریت نے جرائم کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے ۔ آج مدارس کے بچوں میں بھی جرائم کے ارتکاب کا رجحان تیزی سے پرورش پا رہا ہے ۔ جیلوں میں پڑے بچوں میں 60فیصد ایسے ہیں جنہوں نے مدارس سے اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے آوارہ گردی شروع کر دی تھی ۔ باقی 30فیصد وہ بچے ہیں جو کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار  حاصل نہ کر پائے تھے ۔ امریکہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا غلغلہ دنیا بھر میں کرتا ہے لیکن اسکے اپنے معاشرے میں ہر ادارے میں سیاہ فام آبادی کے خلاف تعصب برتا جاتا ہے ۔ عدالتی مقدمات میں اسی نوع کا جرم کا مرتکب ہونے پر سیاہ فام ملزم کو سفید فام سے 10فیصد زیادہ سزا دی جاتی ہے ۔ نیویارک کے منہاٹن کی چکا چوند اور ترنم راتوں سے ذرا ہٹ کر پڑوس میں ہی بروکلین اور دیگر مضافات پر نگاہ ڈالی جائے تو پارکوں میں اور سڑکوں پر تنے خیموں میں بے گھر امریکی اپنی کائنات بسائے ہوتے ہیں ۔ اس وقت 16لاکھ کے قریب امریکی بے گھر ہیں جو حکومت کی فراہم کردہ ہنگامی پناہ گاہوں میں شب بسری کرتے ہیں ۔ ان کی اکثریت آغازِ شب پر ہوٹلوں کے پچھواڑے پہنچ جاتی ہے اور جب نصف شب کے قریب ان طعام گاہوں سے گاہکوں کا بچا کھچا کھانا بلدیہ کے کوڑا کرکٹ کیلئے رکھے ڈبوں میں پھینکا جاتا ہے تو ان خانہ بربادوں کو ان کا طعام مل جاتا ہے ۔ اس صورتحال میں المناک بات یہ ہے کہ ان بے گھروں میں 44فیصد وہ لوگ ہیں جو ملازمت کرتے ہیں لیکن اپنے لئے رہائش کا انتظام نہیں کر پاتے ۔ یہ کم نصیب امریکی حکومت کی قائم کی گئی عارضی ہائوسنگ اسکیم کے مستقل مہمان ہوتے ہیں ۔ امریکی محکمہ شہری آبادی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بے گھروں کی سب سے بڑی تعداد نیویارک میں ہے ۔ اس وقت کرۂ ارض کے کاروبار اور لین دین پر بلا شرکت غیرے فرمانروائی کرنے والے اس شہر میں 76ہزار 501امریکی اپنی راتیں حکومت کے نصب کئے گئے خیموں یا پارکوں میں بسر کرتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر لا س اینجلس آتا ہے جہاں 55ہزار 188افراد بے گھر ہیں اور حکومتی پناہ گاہوں میں ٹھکانہ کئے ہیں ۔ مجموعی طور پر پورے ملک میں  5لاکھ امریکی بغیر رہائش گاہوں کے ہیں جبکہ اس تعداد کا ایک چوتھائی بچوں پر مشتمل ہے ۔ اس وقت46مختلف ریاستوں میں خیموں کے شہربسا ئے گئے ہیں جہاں شام ڈھلتے ہی ناداروں کا جمگھٹا لگ جاتا ہے ۔ صفوں میں لگ کر مفت کھانا حاصل کرتے ہیں اور اپنے بدن نیند کی آغوش میں پھینک دیتے ہیں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مستقبل اور اس کی آنیوالی نسلوں کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ گزشتہ برس قانون کے محافظ اداروں نے 8لاکھ 56ہزار 130ایسے مجرم بچوں کو گرفتار کیا تھا جن کی عمریں 18برس سے کم تھیں ۔ یہ نوخیز ہر طرح کے جرم میں ملوث رہے تھے ۔ ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ اگر افزائشِ جرم کی شرح یہی رہی تو 2050ء تک امریکہ میں 10کروڑ 16لاکھ بچے سزا یافتہ مجرم ہو چکے ہوں گے ۔ 
تو رہاست ہائے متحدہ امریکہ ،کرہ ٔ ارض کی اکلوتی سپرپاور جو جب چاہے 8ارب انسانوں کی اس پناہ گاہ کو تہس نہس کرے اور پھر اس کی خاک کو بھی فضائوں کا غبار کر دے لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ! لاکھوں بے گھروں کی بے صدائی اور اشتہا کی داستان ! گلی کوچوں میں آوارہ گھومتے مجرم بچوں کے کھوئے مستقبل ، پارکوں میں رات کی سیاہی میں منشیات کی خود فراموشی میں ڈوبتی نئی نسل!!اگلی مجنونا نہ اور الٹی سیدھی بڑھک مارنے سے پہلے ڈونالڈٹرمپ ایک کام کریں ۔ مصر کا دورہ کریں اور قاہرہ کے عجائب گھر میں فرعون رامسیس کی حنوط شدہ ممی کے سامنے جاکر کھڑے ہوں ۔ مصر پر 67برس حکومت کرنے والا ، اپنے آپ کو دنیا کا رازق سمجھنے والا دیوتا اور تاریخ میں تہلکہ مچانے والا آج نشانِ عبرت بنا پڑا ہے ۔ اٹل صرف رب کریم کا فیصلہ ہے ۔ 
’’اور ہم دنوں کو انسانوں میں گردش دیتے ہیں ‘‘
 

شیئر: