Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’تھپڑانہ تربیت‘‘

***شہزاد اعظم***
ہم لاکھ کوششوں کے باوجود اپنے ’’7سالہ معصوم ، دودھیاگال‘‘ پرمس شکیلہ کے گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک ہاتھ کا زناٹے دار طمانچہ آج تک نہیں بھول پائے ۔ یہ ایک ’’تربیتی سانحہ‘‘ تھا جس نے ہماری سوچوں کے دھاروں کو نئے رستوںڈال دیا۔ ہم سے ’’خطا‘‘ یہ ہوگئی تھی کہ ہم نے مس شکیلہ کی موجودگی میں اسکول کی ماسی ’’نذیراں‘‘سے اتنا کہہ دیا تھا کہ ’’ماسی !اگر میری امی جان میرے لئے کچھ بھجوائیںتو تم لا کر مجھے دے دینا۔‘‘ابھی ہمارا یہ جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ مس شکیلہ نے تھپڑانہ برہمی کا اظہار کر دیا۔
ہمیں اپنا اسکول وطن عزیز کا سب سے پر کشش خطہ محسوس ہوتا تھا۔ ہم وہاں سے گھر واپس جانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ جب چھٹی ہوتی اور سارا تدریسی عملہ برقعے شُرقے پہن کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتا تو ہمیں ایسا لگتا جیسے ’’آفتابِ مسرت‘‘ غروب ہورہا ہے ۔اسی اثناء میں امی جان ہمیں اسکول سے لینے کیلئے آجاتیں اور ہم بوجھل قدموں سے ان کے ساتھ گھر واپسی کیلئے روانہ ہو جاتے۔ اسکول کیلئے ہماری اس قدر محبت،مودت، انسیت، چاہت ، یگانگت اوراپنائیت کا سبب بلا شبہ مس شکیلہ ہی تھیں۔ہمیں ا پنے بائیں گال پرمس شکیلہ کی جانب سے ڈھائے جانے والے ’’ظلمِ چپت‘‘پر بے حد دکھ ہوا، ہماری آنکھوں سے موتیوں کی شکل میں ’’آب حزن‘‘اندھے سفر پر روانہ ہونے لگا۔ ہم نے مس شکیلہ’’ سوالی شکوہ‘‘ کیا کہ ہم سے ایسی کیا گستاخی ہوگئی تھی جس کی اتنی غیر متوقع سزا دی گئی ہے ۔ انہوں نے جواباً آگاہ کیا کہ :
’’آپ نے ماسی کی توہین کی ہے۔ انہیں ’’آپ‘‘ کی بجائے ’’تم‘‘ کہنے کی جو سزا میں نے آپ کو دی ہے ، وہ بہت ہی معمولی ہے۔یاد رکھئے ، اگر ہم خود معزز ہونا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم دوسرے انسانوں کی عزت کریں۔ انہیں اچھے ناموں سے، اچھے القاب سے پکاریں۔ جو کسی کی عزت کرنا نہیں جانتا، وہ خود کبھی معزز نہیں ہو سکتا۔آج کے طمانچے کے بعد مجھے کم از کم اتنا یقین ہے کہ آئندہ آپ اپنی زبان سے ’’تم ‘‘کا لفظ ادا کرنے سے قبل 10مرتبہ سوچیں گے ۔
واقعی ، مس شکیلہ کی جانب سے ہونے والی ’’تھپڑول‘‘ کے باعث ہماری ایسی اصلاح ہوئی کہ ہم لفظ ’’تم‘‘ ادا کرنے سے قبل 10سے زائد مرتبہ سوچنے کے عادی ہوگئے ۔آج بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوچتے سوچتے اس کے استعمال کا وقت ہی گزر جاتاہے۔اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ ہم صرف ’’تم‘‘ ہی نہیں بلکہ اکثرلفظوں کے استعمال میں احتیاط کرنے لگے، فرق اتنا رہ گیا کہ کسی لفظ کو زبان سے ادا کرنے سے پہلے 5مرتبہ، کسی کی ادائیگی سے قبل 3مرتبہ اور کسی کیلئے 30مرتبہ سوچتے تھے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہماری تربیت مکمل ہو گئی  مگر ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ اصل تربیت تو ابھی شروع ہونی ہے ۔ ہوا یوں کہ ہم شباب کے ’’عنفوان‘‘ میںپردیس آگئے۔ یہاں نہ صرف زمین نئی تھی بلکہ زمین والے بھی نئے، ان کی عادات نئی، ان کی زبان الگ، ان کی اٹھان الگ، ان کی پہچان الگ۔ہم اردو بولتے تو کوئی نہ سمجھتا، عربی ہمیں آتی نہیں تھی اور انگریزی کسی کو بھاتی نہیں تھی۔ انجام یہ ہوا کہ وطن میںتو جملے کا کوئی ایک آدھ لفظ ہی ایسا ہوتا تھا جس سے قبل سوچنا پڑتا تھا، پردیس میں عالم یہ ہو گیا کہ سارے کا سارا جملہ ہی سوچ کر بولنا پڑرہا تھا۔یوں مس شکیلہ کی دی ہوئی تربیت ہمار ے لئے یہاں بھی اہم مشعل راہ ثابت ہوئی ۔اس حوالے سے صرف ایک مثال پیش کرنا حد سے زیادہ بلکہ’’ انتہاپسندانہ حد‘‘ تک موثر رہے گا:
ہوا یوں کہ ہم ایک کمرے میں رہ رہے تھے۔ کئی سال بیت گئے اس میں رہتے رہتے ۔ ایک روز ہم کمرے سے باہر نکلے توساتھ والی عمارت کے مالک نے ہمیں تاڑ لیا۔وہ ہمارے قریب آئے ، سلام کیا، ہم نے جواب دیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ’’لیش انتا سکر باب بالقوۃ، مع صوت کبیر؟‘‘ یعنی ’’ آپ اپنے کمرے کا دروازہ بزور قوت دھماکے دار انداز میں کیوں بند کرتے ہو؟‘‘ ہم نے اب اس کو یہ بتانا تھا کہ ’’یقین جانئے !ہم دروازہ قوت سے بند نہیں کرتے بلکہ ہوا سے نمی جذب کر کے دروازے کی لکڑی پھول گئی ہے اس لئے بند کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘‘اس کے لئے ہم نے سوچ سوچ سوچ کر الفاظ مجتمع کئے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کی تو جملہ یوں بن سکا:
’’ انا مو سکر باب بالقوۃ، خشب الباب، شرب میاہ من الہوا، ایجی دُبا، دہ حین واحدسکر باب مشکلہ‘‘۔
یوں کسی نہ کسی طرح ہم نے اپنا مدعا بیان کیا تو موصوف کو ہمارے حال پر ترس آگیا اور انہوں نے ہماری مزید سرزنش کا ارادہ ترک کر دیا۔اب ہمیں پردیس میں وقت گزارتے گزارتے ربع صدی ہونے کو ہے ، آج بھی ہمیں جب کوئی بات کرنے ہوتی ہے تو ہم کئی مرتبہ سوچ سوچ کر جملہ مکمل کرتے ہیں اور پھر اسے زبان سے ادا کرتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ ہم کوئی بات کرنے سے پہلے احتیاطاً ہی معافی مانگ لیتے ہیںچنانچہ ’’انا آسف‘‘کہہ کر بات شروع کرتے ہیںاس کے باوجود ہمیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی لفظ غلط ادا نہ ہو جائے ، نہیں تو پھرہمیںمعافی مانگنی پڑے گی ۔
آج کل ہمارے وطن عزیز میںبعض’’ جوشیلے سیاستداں‘‘ بلا سوچے سمجھے بولنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک رہنما نے قومی خزانہ لوٹنے والوں کو ’’ڈاکو‘‘کہہ دیا جو انہیں برا لگ گیا اور بالکل صحیح برا لگا۔ اگر ہم ہوتے تو ڈاکو کی بجائے’’جبری حاجتمند‘‘ کہتے کیونکہ بہر حال خزانے کے سارقوں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے، کوئی وقار ہوتا ہے ۔ہماری خواہش ہے کہ بلا سوچے سمجھے بولنے والے رہنمائوں کوصرف 6 ماہ  کیلئے مس شکیلہ جیسی کسی استانی سے’’تھپڑانہ تربیت‘‘ دلائی جائے تو سیاسی اخلاقیات میں نکھار آجائے گا۔
 

شیئر: