Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صفر کا آخری بدھ ، حقیقت کیا ہے؟

’’چھوت لگنا، بد شگونی لینا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو ہیں البتہ کوڑھی شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسا کہ شیر سے بھاگتاہے‘‘
   
*  * *حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی۔جمشید پور*  * *

اللہ رب العزت نے ہر چیز پیدا فرمائی ہے۔ اس میں دن، ہفتہ، مہینہ، سال سب شامل ہیں اور سب کا ذکر اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا، سال کا ذکر اور مہینوں کی تعداد کا ذکر بھی فرمایا: ’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں 12کی ہے اُسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اُس نے پیدا کیا ہے(التوبہ36)۔
     اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قمری سال کے مہینوں کا ذکر فرمایا ہے اور آگے اسی آیت مبارکہ میں یہ بھی فرمایا:’’یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘    یعنی پورے سال اللہ کے بتائے راستوں پر چلو۔ طرح طرح کے رسم و خرافات میں پڑ کر اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔     صفرالمظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اور ان کا گمان ہے کہ اس ماہ میں بکثرت مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت مصطفویہ نے نزولِ آفات سے انکار کیاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا:’’ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت کا نزول نہیں ہوتا۔‘‘(مسلم)۔
    دوسری حدیث پاک یوں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’چھوت لگنا، بد شگونی لینا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی(کوڑھی)شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسا کہ شیر سے بھاگتاہے۔‘‘ (بخاری)۔
    بخاری شریف میں یہ حدیث بھی مذکور ہے کہ نبی نے فرمایا:
    ’’چھوت(بیماری) لگ جانا، بدشگونی، شیطانی گرفت(بھوت چڑھنا) یا صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں۔‘‘ (بخاری)۔
    آخری چہار شنبہ (بد ھ) کیاہے؟:
    صفرکے آخری بدھ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ اس روز حضور نے مرض سے صحت پائی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا اور مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ مرض جس میں آپ نے وفات پائی اس کی شروعات اس دن سے ہی بتائی جاتی ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے ماہ صفر کے آخری بدھ سے آپ کا مرض شروع ہوا اور 12ربیع الاول کو وصال ہوا۔ مسلمانوں کے لئے عبرت کا مقام ہے کہ پیغمبر کی بیماری پر جشن منائیں۔ یہ غلط بات مشہور ہے کہ آپ نے اس دن غسل صحت فرمایا۔ کتابوں میں اس کا تذکرہ نہیں ۔ حضور کی صحت یابی کی خوشی میں کچھ لوگ اپنے اہل وعیال کے ساتھ نہاتے دھوتے ہیں اور خوب اچھے اچھے کھانے بناتے کھاتے ہیں، اہل وعیال کے ساتھ تفریح کے لئے نکل جاتے ہیں اور طرح طرح کی خرافات کرتے ہیں جو شرعاً ممنوع ہیں۔ کچھ لوگ اس کو نحس مان کر گھر کے مٹی کے پرانے برتن گھڑا وغیرہ توڑ دیتے ہیں، یہ بھی غلط ہے، اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ خوشی منانا اور منحوس سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں جس کا ذکر اوپر احادیث طیبہ میں آچکا ہے۔ چند احادیث اور ملاحظہ فرمائیں، ایمان میں جلا پیدا فرمائیں۔
     ٭ حضرت عبد اللہ بن عمرواورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی نے مجھے صفر(زرد) سے رنگے ہوئے 2کپڑوں کو پہنے دیکھا تو فرمایا: تجھے تیری ماں نے یہ کپڑے پہننے کا حکم دیا ہے/میں نے عرض کیا: میں اس رنگ کو دھو ڈالوں گا۔ آپ نے فرمایا(نہیں ) بلکہ اسے جلا ڈالو(مسلم ) ۔
    ٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ نے فرمایا: مرض کے متعدی ہونے اور صفر کی نحوست اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں، تو ایک دیہاتی نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ! کیاوجہ ہے کہ اونٹ ریت میں ہرنوں کی طرح صاف ہوتے ہیں پھر ان میں کوئی خارش (کھجلی)زدہ اونٹ آتا ہے جو ان اونٹوں کوبھی خارش زدہ کر دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا:پہلے ا ونٹ کو بیماری لگانے والا کون ہے؟ (مسلم )۔
     اللہ پاک ہم تمام مسلمانوں کو دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مزید پڑھیں:- - -  -کیا صفر میں شادی بیاہ مکروہ ہے؟

شیئر: