Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوش قسمت ہیں جنہیں سسرال کی محبت او رہم مزاج شوہر مل جائے،ہما سعد

 عنبرین فیض احمد۔ ینبع
بلاشبہ کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق عورت ہے۔ عورت ایسا وجود ہے جسے قدرت نے پیکر حسن و جمال بنایااور اسے دنیا میں بلند اور معزز مقام عطا فرمایا۔ عورت ماں کے روپ میںممتا ، بہن ہو تو مہربان، بیوی ہو تو جذبہ ایثار سے معمور اک ہستی وفادار، بیٹی ہو تو گھر کی رونق ۔عورت کا ہر روپ ہی بے مثال ہے کیونکہ اس کی صلاحیت ، اہلیت و قابلیت کے اعتبار سے اس کا کوئی ثانی نہیں ۔وہ چار دیواری میں رہ کربھی اپنے گھر کی ملکہ کی حیثیت سے گرہستی کچھ اس طرح سنبھالتی ہے کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر مشرق کی عورت کو وفا کا پیکر کہا جاتا ہے۔ ہر روپ میں رونق حیات کا سہرا اسی کے سر ہوتا ہے۔ اس کا وجود پریشان اور دکھی دل کو شاداور ویرانیوں کو آباد کردیتا ہے۔ تلخی کو مٹھاس اور نفرت کو محبت میں تبدیل کرنے میں عورت کو ذرا دیر نہیں لگتی۔ اس ہستی کا وجود اپنی انہی بے مثال خوبیوں کی وجہ سے مکان کو گھر میں ڈھال دیتا ہے۔ عورت وہ ہستی ہے جو اپنے ہی گھر میں سب کے احکامات کو دل وجان سے بجا لاتی ہے اور اس کی پیشانی پر بل تک نہیں آتے ۔وہ شوہر کے ہر دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتی ہے۔ وہ ان رشتوں ناتوں کو اپنی دنیا تصور کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ قدرت نے اس کے خمیر کو خلوص اور محبت سے گوندھا ہے ۔بے شک عورت صنف نازک تو ہے مگر وہ پھولوں کی مہک سے معمور بادصبا ہے ا س لئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں
ہما سعد ظفر اس ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان ہیں۔یہ ا یسی شخصیت کی مالک ہیں جنہوں نے کمسنی سے ہی اپنے شعور کا لوہا منوایا ۔ان کی صلاحیتوں کے باعث گھر والوں سمیت اعزہ و احباب تمام لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے۔ بیٹی کی حیثیت سے وہ ایسی خوشبو تھیں جن کے وجود سے ان کے گھر کا آنگن مہکتا رہا۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب خوب لاڈ اٹھاتے۔ خاص کر اپنے بابا کی وہ آنکھوں کا تارا بنی رہتیں مگر اس لاڈ پیار نے ان کی شخصیت کو بگاڑنے کی بجائے مزید جلا بخشی ورنہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کو جب اتنا لاڈ پیار ملتا ہے تو وہ ان کے بگاڑ کا باعث بن جاتا ہے مگر ہما کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ان کی شخصیت میںمزید خوداعتمادی پیدا ہوگئی۔ جب ہما سے گفتگو ہوئی تو ان کی زبان کی شرینی اور لہجے کی مٹھاس نے کافی متاثر کیا۔ ہما سعد کہتی ہیں کہ میرا تعلق روشنیوں کے شہر کراچی سے ہے۔ کراچی سے ہی میری تمام یادیں جڑی ہوئی ہیں ۔اس شہرسے میرے بچپن کے قیمتی دنوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ہم نے اسی شہر میں وقت گزار۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پیار کی وجہ سے ہی ہوں۔ انہوں نے جس محنت اور لگن سے کام لیا اس کاجواب نہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سبھی والدین اپنے بچوں کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر کرتے ہیں تا کہ و ہ بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کریں۔
میرے والدمحترم نیپا میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور میری والدہ بھی تعلیم یافتہ تھیں۔ وہ بھی درس و تدریس کے شعبے سے تعلق رکھتی تھیں اورایک گورنمنٹ اسکول کی ہیڈمسٹریس تھیں۔ اس لئے ہماری پرورش میں ہمارے والدین نے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا، میرے والدین نے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم سب کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کیا۔میرے والدین صوم و صلوٰة کے پابندتھے۔وہ ہم بہن بھائیوں کی خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔
اسے بھی پڑھئے:گھر میں سب سے چھوٹی بیٹی تھی، سسرال میں سب سے بڑی بہو ہوں ،تبسم نا صر
میرے والد بہت اصول پسند تھے۔ وہ کبھی ہماری بے تکی فرمائشیں پوری نہیں کرتے تھے ۔ جہاں تک تعلیم وتربیت کی بات ہے تو میرے والدین نے اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیاکیونکہ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی تربیت کی چھاپ ان کی شخصیت پر بڑا گہرا اثر چھوڑتی ہے اور ہم سب کو جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا، انہوں نے پڑھایا۔ میری سب سے بڑی بہن ڈاکٹر ہیں جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے بعد بھائی ہیں وہ بھی پیشے کے اعتبار سے سافٹ ویئر انجینیئر ہیں اور کینیڈا میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بعد بہن ہیں جنہوں نے بایوکیمسٹری میں ایم ایس سی کیا ہے۔ سب سے آخر میں میرا نمبر آتا ہے ،میں نے بھی معاشیات میں ماسٹرز کیا ہے ۔ ہمارے والد کا کہنا تھا کہ میری اولاد ہی میراا صل سرمایہ ہے۔ اس لئے ان کی تعلیم و تربیت میں کسی طرح کمی نہیں ہونی چاہئے ۔ 
جس طرح سب لڑکیوں کے رشتے آتے ہیں، اسی طرح میرے لئے بھی رشتے آئے۔ 2010ءمیں والدین کی مرضی اور پسند سے میری شادی سعد انیس ظفر سے ہوگئی۔ میری منگنی 3سال رہی کیونکہ میری تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی۔ شادی کے بعد جب میں نے سسرال میں قدم رکھا تو مجھے ایک انجانا ساخوف تھا کہ معلوم نہیں سسرال میں مجھے اتنی چاہت مل پائے گی یا نہیں مگر الحمد للہ ،میں بہت خوش نصیب ہوں اور میرے والدین کی دعائیں شامل حال ہیں کہ مجھے اتنا اچھا سسرال ملا۔ وہ لڑکیاں بڑی خوش قسمت ہوتی ہیں جنہیں سسرال کی محبت او رہم مزاج شوہر میسر آجائے ۔اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر شریک حیات اچھا اور سلجھا ہواہوتو زندگی کی گاڑی میں تیزی آجاتی ہے۔ یعنی عورت کی زندگی میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے ورنہ عورت کی ساری زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ تمام عمر عورت کو ایک انجانا سا خوف رہتا ہے لیکن شوہرسے اگرذہنی ہم آہنگی ہوجائے تو یقینا زندگی آسان اور سہل ہو جاتی ہے۔ 
ہما کہتی ہیں کہ میرے شوہر ہمہ جہت و ہمہ صفت ، بے مثال خصوصیات کے مالک ہیں۔ انہوں نے کراچی سے معیشت اور انتظام میں ایم بی اے کر نے کے بعد کراچی کے ہی مختلف اداروں میں کام کیا اور پھر سعودی عرب آگئے۔ یہاں 3سال سے سعودی عرب کی ایک مشہور کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ میں یہاں یہ بتاتی چلوں کہ میری 4نندیں ہیں جن میں سے 3قوت سامعہ یا سماعت سے محروم ہیں یعنی وہ سن نہیں پاتیں اور ایک نند جو بالکل نارمل ہیں، وہ ڈاکٹری کے آخری سال میں ہیں لیکن یہاں پر یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ جو نندیںقوت سماعت سے محروم ہیں وہ نہایت ہی سلجھی ہوئی ہیں ان کو دیکھنے سے بالکل نہیں لگتا ہے کہ ان کا شمار ”خصوصی افراد“ میںہوتا ہو گا۔ میرے ساس اور سسر نے انہیں تعلیم اور امور خانہ داری کے تمام گر سکھائے ہیں۔ انہیں گھر کے ہر کام آتے ہیں۔ تعلیم بھی انہوںنے بی اے تک حاصل کی۔ ما شاءاللہ میری نندیں بہت سمجھدار ہیں کیونکہ آج کل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ الحمد للہ، اس نے معذور انسانوں کی کافی مدد کی ہے ،ان میں کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نئے نئے آلات ایجاد کر کے کافی لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ میری قوت سماعت سے محروم نندوں کی شادیاں بھی ہو چکی ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں مگر اللہ کریم کے فضل و کرم سے ان کے بچے بالکل نارمل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ دو نندوں کے بچے مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی حافظ قرآن بھی بن رہے ہیں۔ ہما کہتی ہیں کہ اللہ کریم نے ابھی تک ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نہیں نواز مگر اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہو گی ۔ الحمد للہ ،میں اپنے رب کریم سے بالکل بھی ناامید نہیں ہوں۔ وہ ہماری خواہش ضرور پوری فرمائے گا۔ 
بچپن سے ہی ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی اصل ذمہ داری گھرداری ہوتی ہے ۔خواہ لڑکیاں کتنی ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو جائیں۔ انہیں تو گھر داری کرنی ہوتی ہے۔ ویسے بھی جب سے میں نے ہوش سنبھالا، میری ماں نے مجھے گھر کی چھوٹی موٹی ذمہ داریاں سونپ دیں اور اس طرح جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی گرہستی کی سوجھ بوجھ بھی آگئی۔ مجھے کسی ادارے میں جا کر کھانا پکانا یا کوئی اور کا م سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ویسے سنا یہی ہے کہ بیٹی ماں کی شخصیت کا پرتوہوتی ہے ،اس لئے بیٹی کے ذہن کے پردے پر کہیں نہ کہیں ماں رول ماڈل ہوتی ہے۔ بیٹی اس کی ایک ایک حرکات کو اپنے ذہن میں تازہ کرتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں وہی کرنے کی کوشش کرتی ہے جیسا وہ اپنی ماں کو کرتے ہوئے دیکھتی تھی۔
میں بچپن سے اپنی والدہ کو گھر کے کام کاج میں مصروف دیکھا کرتی تھی ۔ وہ ہر کام بہت ہی سلیقے سے کیا کرتی تھیں۔ مجھے سیر وتفریح کا بھی کافی شوق ہے۔ وہ میری زندگی کے یادگار لمحات تھے جب میں شادی کے بعد پہلی بار اپنے شوہر کے ساتھ پورے پاکستان کی سیر پر گئی تھی۔ پاکستان کے کافی دلکش اور حسین مناظر دیکھنے کو ملے جو میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ پاکستان میں یہ وہ مقامات ہیں جو قدرت کا کرشمہ لگتے ہیں اور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ان مقامات پر پہنچنے کے لئے راستے صحیح تعمیر کر دئیے جائیں تو کوئی وجہ نہیںکہ ہمارے ملک میں بھی بڑی تعداد میں سیاح آئیں۔ ہمارا ملک ،مغربی ممالک سے کسی طور کم نہیں۔ اگر شمالی علاقہ جات کے حسین و دلفریب مقامات تک پہنچنے کے لئے محفوظ راستے تعمیر کروا دئیے جائیں تو کوئی وجہ نہیںکہ سیاح ایسے مقامات کو دیکھنے نہ آئیں۔ان سیاحوں کی آمد سے ملک میں زرمبادلہ کا بھی اضافہ ہوگا۔ 
محترمہ ہما کہتی ہیں کہ میں سمجھتی ہوں کہ شوہر کی محبت کے سہارے عورت دنیا کی ہر کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں انہی کی بدولت ہوں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرد کبھی کبھی اپنی کڑوی کسیلی باتوں سے خاص کر بیوی کے دل کو چھلنی کرنے لگتا ہے مگر ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب مرد عورت کو کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ پھر ازدواجی زندگی بھی ایک ناسور بن کر رہ جاتی ہے۔ ہر عورت کے لئے شوہر کا رشتہ سب رشتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ عورت گھر کے سکون کی خاطر ہر تکلیف سہنے کے لئے ہمہ وقت تیا ررہتی ہے۔ وہ عورت ہی ہوتی ہے جو اپنے خاندان کی خاطر اپنا سکھ چین سب کچھ ختم کر دیتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایثار، خدمت، ہمدردی اور محبت کے جذبات اگر کسی پیکر میں محسوس کئے جا سکتے ہیں تو وہ عورت ہے۔ عورت مرد سے زیادہ محنتی ، سمجھدار اورمائل بہ ایثارہوتی ہے۔ بھلائی کے کاموں میں وہ پیش پیش رہتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں عورت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
عام طور پر معاشرے میں عورت کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ عورت کمزور ، کم عقل اور جذباتی ہوتی ہے او رکسی بھی مشکل مرحلے کا بہادری سے سامنا نہیں کرسکتی۔ اگر کسی عورت کے ساتھ کوئی مشکل پیش آجائے تو ایسی صورتحال میں یا تو وہ اس موقع سے فرار اختیار کر لیتی ہے یا پھر رونا شروع کردیتی ہے لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کررہا ہے،اس سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ 
مجھے مشترکہ خاندانی نظام بہت پسند ہے کیونکہ مجھے بچپن میں اپنی نانی ، نانا اور ماموں کا بہت پیار ملا۔ میرا بہت دل چاہتا تھا کہ کاش میرے دادا ، دادی حیات ہوتے تو وہ بھی میرے ساتھ ہوتے کیونکہ اکٹھے رہنے میں بے حد فوائد ہیں۔ والدین کو بچوں کی تربیت کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ وہ اپنے بزرگوں سے ہی بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ ہر اچھی ، بری بات گھر کے بزرگ بچوں کو بڑے ہی پیار سے سمجھاتے ہیں۔ 
ہما سعد سے ابھی گفتگو جاری تھی کہ ان کے شوہر بھی آگئے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم اردونیوز کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ انہو ںنے ہمارے انٹرویو کا انتخاب کیا۔ ہم دونوں اس جریدے کو انتہائی شوق سے پڑھتے ہیں ۔خاص کرمیں جمعہ کا اردونیوز تو ضرور گھر لے کر آتا ہوں جس میں مختلف مضامین ہوتے ہیں۔ روشنی، دھنک جس میں لوگوں کے انٹرویو وغیر ہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری شریک سفر ما شاءاللہ، بہت سلجھی ہوئی اور سمجھدار ہیں۔ وہ میرے گھر کے حالات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں او رمیرا ساتھ دیتی ہیں۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اس لئے مجھ پر ذمہ داریاں بھی کچھ کم نہیں ۔ میں اپنی اہلیہ کا بہت مشکور ہوں کہ وہ مجھے سمجھتی ہیں۔ میری 4بہنیں ہیں جن میں سے 3بہنوں کا شمار خصوصی افراد میں ہوتا ہے۔ ا س کے باوجود وہ سب کے ساتھ بڑے ہی اخلاق سے رہتی ہیں۔ یہ ان کی بڑائی ہے۔ 
جب ادب پر بات ہوئی توہما نے کہا کہ زمانہ تعلیمی میں اکثر شعر وشاعری پڑھا کرتی تھی او رمجھے شوق بھی کافی تھا مگر اب دوسری مصروفیات کی وجہ سے ذرا وقت کم ہی ملتا ہے لیکن پھر بھی میں یہاں پر ساحر لدھیانوی کی غزل اردونیوز کے قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی:
تنگ آچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسی مآل محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑددیا رشتہ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم 
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
 گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم 
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے 
پوچھیں گہ اپنا حال تری بے بسی سے ہم
 

شیئر: