Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حوالہ ،ہنڈی کا کاروبار،کس کا فائدہ اور نقصان

کراچی (صلاح الدین حیدر) پتھر کے زمانے سے نکل کر انسان نے بارٹر یعنی اشیاءکے بدلے اشیاءکا کام شروع کیا۔ دنیا میں جہاں جہاں کرنسی ترقی کے مراحل طے کرتی چلی گئی اس تجارت اور کاروبار کے عمل میں تبدیلی آتی گئی۔ پھر کرنسی کا دور آیا، ہر ملک نے کاروبار خرید و فروخت، تجارت کے ذریعہ معاش بنایا تو پھر اس میں بھی تبدیلیاں آگئیں۔بین الاقوامی تجارت بینکوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسے بینکنگ کی اصلاح میں لیٹر آف کریڈٹ کہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسا ہی کام ہوتا ہے لیکن دنیا میںایسے ممالک بھی ہیں جہاں وعدے پر لین دین ہوتا ہے، پورے کا پورا کاروبار، کروڑوں روپے صرف زبان پر ہوتے ہیں۔یعنی کہ ہم 60 یا 90 دنوں میں پیسے بھیج دیں گے آپ مال سپلائی کردیں۔اب بھی یہ رواج قائم ہے گو کہ اس سے معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ہر ملک کا ایک مرکزی بینک ہوتا ہے، پاکستان میں اسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہتے ہیں۔ ہندوستان میںریزروبینک آف انڈیا اور امر یکہ میں فیڈرل ریزروکے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ تجارت، معیشت کی دیکھ بھال، بینکوں کے کاروبار اور ہر روز بلا ناغہ نظر رکھنا کہ کہیں کوئی الٹا پلٹا کاروبار تو نہیں کر رہا۔ مقصد یہ کہ تجارت اور کرنسی کا لین دین کا حساب کتاب رکھا جائے کہ کتنی رقم چھوٹی ہو بڑی ملک سے باہر جائے یا ملک کے اندر آئے لیکن 1991ءمیں نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں فارن کرنسی میں ذاتی بینک اکاﺅنٹ رکھنے کا حق لوگوں کو دے دیا۔ اچھی بات تھی، اس سے اسٹیٹ بینک کے کاروبار میں تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس لیے ہر روز اسٹیٹ بینک تمام شیڈول بینکوں سے ان کے لین دین کا حساب مانگ لیتا تھا تاکہ یہ پتہ رہے بین الاقوامی تجارت، بیرون ملک سے پیٹرول یا پیٹرولیم مصنوعات خریدنے میں کتنا پیسہ باہر گیا۔ فضائی اور شپنگ کمپنیز کو کتنا پیٹرول فراہم کیا گیا اور اس سے کتنی رقم حاصل ہوئی۔ وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ طور طریقوں میں بھی تبدیلیاں آتی گئیں لیکن اس میں ایک بری بات یہ تھی کہ اسٹیٹ بینک نے جو کہ حکومتی ادارہ ہے ۔ نجی فارن کرنسی کو بھی اپنے حساب میں جمع کرنا شروع کردیا اوور اس طرح قوم کو جان بوجھ کر یا تو بیوقوف بنایا گیا یا ان سے پردہ پوشی کی گئی یا پھر انہیں اندھیرے میں رکھا گیا۔ اسٹیٹ بینک کی رقم قوم کی امانت ہے، نجی کاروبار کرنے والے اور بیرونی کرنسی اکاﺅنٹ رکھنے والے اپنا حق رکھتے ہیں۔ دونوں کو ملانا بدنیتی تھی جو کہ عرصہ دراز سے ہوتی رہی اور اب تک چلی آرہی ہے۔
فارن کرنسی کو نجی شعبے میں دینے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں فارن ایکس چینج کمپنیاں کھل گئیں، جابجا یہ کاروبار شروع کردیا گیا جو آج بھی جاری ہے لیکن اس میں ایک قباحت تھی وہ یہ کہ بیرونی دنیا سے آئی ہوئی رقم ڈالر میں ہو، پونڈ ہو یا ریال میں یا پھر عرب امارات کے درہم ، یا عمانی، کویتی دینار اور ریال میں ہو اس میں چوری چھپے کام ہونے لگا۔ لوگوں نے یہ دیکھ کہ فارن ایکس چینج کمپنیاں منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں، کاروبار خود ہی شروع کردیا۔ طریقہ کار بہت سیدھا سادا تھا۔ یہاں آپ کسی کی کچھ رقم پاکستانی روپوں میں دیں اور وہ ہندوستان، تھائی لینڈ، ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ، چین، کویت، سعودی عرب، روس غرض کہ بلا مبالغہ ساری دنیا میں مل جایا کرتی تھی یوں آپ کی رقم ایک چٹھی پر لکھ کر ایجنٹوں کے ذریعے وہاں بھیجی جانے لگی۔ یہ کام 12 سے 24 گھنٹے میں سرانجام دے دیا جاتا۔ ہلدی لگی نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا ۔
بینکنگ کے ذریعے بیرون ملک سے بھیجی گئی رقم میں 2 سے 3 دن لگتے ہیں، پھر اس پر بینک چارجز لگتے ہیں، کچھ ایک فیصد یا اس سے کچھ زیادہ بھی منہا کرلیے جاتے ہیں لیکن وقت کی بہت حجت ہے۔ لوگ اس کے باوجود کہ وزیراعظم، وزیر خزانہ کی بار بار یہ تنبہیہ ہے یہ طریقہ یعنی ہنڈی جو بالکل غیر قانونی ہے پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں بینک اکاونٹ کھولنے سے نجات مل جاتی ہے اور رقم گھر بیٹھے مل جاتی ہے۔ کون بینک جائے، چیک کاٹے اور پھر لائن میں لگ کر اپنے پیسے نکلوائے لیکن اس میں ملک اور قوم کا نقصان ہے۔ قوم کو اپنی ضرورت یعنی درآمدات، برآمدات، تیل اور گیس کا بل ادا کرنے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے جو ہر سال بلکہ کبھی کبھی تو سال میں دو بار کرنی پڑتی ہے کہ اس کے واسطے پیسہ چاہیے، اس لیے برآمدات کرنے والوں کے لیے ایک ”ای فارم“ بھرنا پڑتا ہے جس پر اسٹیٹ بینک اپنی مہر ثبت کرتا ہے اور برآمدات پوری ہونے پر جب مال پاکستانی بندرگاہوں پر لایا جاتا ہے تو پھر اس پر کسٹم ڈیوٹی، میونسپل ٹیکس لگائے جاتے ہیں پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اسٹیٹ بینک کے پاس بیرونی ادائیگی کے لئے رقم مہیا ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں چونکہ ابھی تک ہنڈی یا غیر قانونی کاروبار بلاروک ٹوک جاری ہے، حکومت کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے پاس کتنا پیسہ ہے کہ وہ معاملات کو دیکھ سکے۔
اب وزیراعظم عمران خان نے ہنڈی اور غیر قانونی کاروبار کرنے والوں پر کریک ڈاون کا حکم صادر فرمایا ہے۔ کچھ دوڑ دھوپ ہوگی خزانے کے افسران بھاگ دوڑ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے لیکن جہاں بدعنوانی لوگوں کی رگوں میں سرایت کرگئی ہو وہاں کب اور کتنے عرصے میں آپ اس سنگین مسئلے پر قابو پائیں گے، دنیا بھر میں فارن ایکس چینج کمپنیاں دھڑلے سے کاروبار کرتی ہیں حکومت سے لائسنس لینے کے بعد۔ مگر غور فرمائیں کہ تمام تر احکامات اور پابندیوں کے باوجود اب بھی تقریباً 30 سے 35 فیصد لوگ ہنڈی پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ یہ تو اب بلا کی صورت اختیار کر گئی ہے جب جن بوتل سے باہر آئے گا تو اسے بوتل میں ڈالنا ناممکن تو نہیں لیکن محال ضرور ہوجاتا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر یہ کاروبار پاﺅں کی زنجیر میں جکڑ دیا گیا تو مرکزی حکومت کے پاس خاصی رقم آسکتی ہے اس لئے کہ ہنڈی کا کاروبار کروڑوں روپے میں ہوتا ہے۔ اسے مکمل طریقے سے روکنا ہوگا۔ حکومت کو اپنے ارادوں میں بھرپور طریقے سے پرعزم رہنا چاہیے ہاں فارن کرنسی کے منافع پر ٹیکس لگانا سخت غلطی ہے اس سے لوگ جان بچانے کے دوسرے اور کئی طریقے اختیار کریں گے۔ بہتر ہے کہ کھلی چھٹی دے دی جائے اور منافع پر سے ٹیکس ختم کردے۔

شیئر: