Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معصوم بچوں کے اغوا کے واقعات بڑھ گئے

کراچی (صلاح الدین حیدر) کراچی شاید اپنی اصل حالت پر لوٹ آیا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں پورے پاکستان سے لوگ روزی کمانے آتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک کے دبئی کے نام سے مشہور تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ 1979ءمیں افغانستان پر سابق سوویت یونین کے حملے اور افغانوں کی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں منتقلی نے سب کچھ بدل دیا۔ طرہ اس پر یہ کہ اس وقت کے صدر مملکت جنرل ضیاءالحق نے ان کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ انہیں پورے ملک میں پھیل جانے کی اجازت دی۔ 30 لاکھ افغان پاکستان کے کونے کونے میں رہائش پذیر اور یہاں مستقل طور پر آباد ہوگئے اور کاروبار پر بھی قابض ہوگئے۔ ان کے پاس اسلحہ تھا جو ہر افغان اور خیبرپختونخوا کے پٹھانوں کے پاس ہوتا ہے۔ کاش ضیاءالحق ایران اور ہندوستان سے سبق سیکھ لیتے۔ 1971ءکی سابق مشرقی پاکستان کی جنگ میں ملٹری کے خوف سے بنگالیوں نے ہندوستان میں پناہ لی، ہندوستان نے نہ صرف انہیں ملٹری ٹریننگ دی بلکہ انہیں ایک کیمپ میں رکھ کر دیکھ بھال کی۔ کھلی چھٹی ایران نے بھی نہیں دی، ان کے یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان اپنے ملک سے فرار ہو کر پہنچے تھے لیکن انہیں کیمپوں تک محدود کردیا گیا۔ شہروں کی آبادی میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ افغان جنگ میں جو کہ آج تک جاری ہے ۔پاکستان میں منشیات اور اسلحہ کا کلچر فروغ دیا اور جرائم اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔ لوٹ مار، ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری نے پاکستانیوں کی زندگی دوبھر کردی۔ جرائم بھی درختوں کی بیلوں کی طرح پھیل گئے۔ جب روسی رائفلیں کلاشنکوف عام لوگوں کے ہاتھوں میں آگئیں تو ملک ہر طرح کے جرائم کی آماجگاہ بن گیا اور لوٹ مار کے بعد اب تو معصوم بچے اور بچیوں کی شامت آگئی۔ پنجاب میں یہ کھیل شروع ہوا، اب کراچی میں تو اس کی بھرمار ہے۔ بچیاں تک اغوا کر لی جاتی ہیں، انہیں اغوا کرنے والے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں اور پھر یہ یا تو وہ باعزت زندگی سے بہت دور چلی جاتی ہیں، یا پھر لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ ظلم و ستم کرکے بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ ایسے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں پچھلے ہی مہینے بلوچستان کے علاقے خاران میں ایک معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی، مجرم تو پکڑے گئے لیکن لڑکی کی زندگی تو اس کے لئے مشکل ترین ہوگئی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ایسی رپورٹ کسی نہ کسی علاقے سے ملی ہو۔ ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ بچے اور ان کے والدین آخر کس کے در پر شکایات لے کر جائیں۔ پولیس تو رشوت لے کر اصل حقائق دبا دیتی ہے جو کہ پاکستان میں پولیس کا خاصہ ہے۔ این جی اوز کے مطابق 10 سے 11 بچے روز ہی اغواءہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ 2015ءمیں ایک اندازے کے مطابق 4000 سے زیادہ جرائم رونما ہوئے۔ ان میں 3,768 واقعات بچوں کے ساتھ زیادتی کے تھے۔ ان ہی میں 1729 واقعات لڑکوں کے ساتھ اور 2410 لڑکیوں کے ساتھ ہوئے۔ این جی اوز کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سارے مقدمات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔ پاکستان میں 71 سال بیت جانے کے بعد بھی انصاف کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کی تفصیلات اور عدالت میں مجرموں کے خلاف شواہد پیش کرنے اکثر و بیشتر تاخیر کی جاتی ہے، پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ پولیس کے نظام کو صحیح کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے بغیر عام لوگ سوائے رونے دھونے کے اور کچھ نہیں کرسکیں گے۔ 
 

شیئر: