معاشی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ؟
کراچی (صلاح الدین حیدر) پاکستانی معیشت کو جن بے شمار مسائل کا سامنا ہے اس میں اسے اپنی حکمت عملی میں نہ صرف اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ سخت ترین فیصلے بھی کرنا پڑیں گے ورنہ صورت حال میں بہتری کی بجائے مزید مشکلات پیدا ہوتی رہے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک جو کہ ملک کے مرکزی بینک کی حیثیت سے نہ صرف حالات کا مستقل طور پر جائزہ لیتا رہتا ہے بلکہ کمرشل بینکوں پر بھی گہری نظر رکھتا ہے کے قوانین کی خلاف ورزی سے بنا بنایا کھیل کہیں بگڑ نہ جائے۔ صرف 2 ہفتے پہلے شرح سود 8.5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردی گئی جو پچھلی 2 دہائیوں میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔ شرح سود میں اضافہ کا مقصد پیسے کے پھیلاو پر قابو پانا تھا تاکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکا جاسکے۔ فوری طور پر تو اچھا اثر ہوا، مگر پچھلی حکومت نے مرکزی بینک سے بہت زیادہ قرض حاصل کر لئے تھے جس سے تجارتی اداروں کو کمرشل بینکوں پر انحصار کرنا پڑ گیا۔ بڑی بڑی صنعتیں اب سوچ میں مبتلا ہوگئی ہیں کہ اپنی ساکھ کو کیسے بحال رکھ سکیں۔ کچھ بڑے اداروں نے تو پہلے سے ہی کمرشل بینک سے کافی قرض حاصل کر کے مستقبل محفوظ کر لیا تھا۔ انہیں شاید آج اتنی پریشانی نہیں جن صنعتکاروں نے اتنا زیادہ شرح سود کا سوچا بھی نہیں تھا وہ آج ضرور پریشان ہیں کہ اپنی صنعت کی قیمتوں کو کیسے برقرار رکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ تجارتی زبان میں اداروں کو لارج اسکیل مینوفیکچرنگ اور اسمال اسکیل مینوفیکچرنگ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کچھ تو اس میں فی الحال تو آرام سے ہیں لیکن اکثریت پریشان ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ بیان خوش آئند ہے۔ انہوں نے امر یکہ کے میگزین کو انٹرویو میں دیا کہ پاکستان میں بہت جلد بڑی بیرونی سرمایہ کاری آنے والی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ابھی سے ایسے اقدامات اٹھانے پڑیں گے جن سے باہر کی کمپنیوں کو اطمینان ہو کہ ان کی سرمایہ کاری میں نقصان کا تناسب ضرورت زیادہ نہیں رہے گا۔ قصہ مختصر، پاکستان اور بیرونی سرمایہ کار شرح سود میں کمی چاہتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے 2 مہینے بعد اس پر نظر ثانی کا وعدہ کیا ہے جب تک امید تو ہے کہ صورت حال میں خوشگوار تبدیلی آجائے گی۔